صفی لکھنوی کا یوم پیدائش

0
65

جنازہ روک کر میرا وہ اس انداز سے بولے
گلی ہم نے کہی تھی تم تو دنیا چھوڑے جاتے ہو

صفی کا نام سید علی نقی زیدی (پیدائش 03جنوری 1862ء،وفات:25 جون 1950ء) تھا، صفی تخلص کرتے تھے والد کا نام سید فضل حسن تھا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کرنے کے بعد نجم الدین کاکوروی سے فارسی اور مولوی احمد علی سے عربی زبان سیکھی۔ کیننگ کالج میں انٹرنس کی تعلیم حاصل کی اور کیننگ کالج سے متعلقہ اسکول میں انگریزی زبان کے استاد کی حیثیت سے معلمی کے فرائض انجام دیئے۔ 1883 میں سرکاری ملازمت اختیار کی اور محکمہ دیوانی میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔

صفی نے لکھنؤ کے عام شعری مزاج سے الگ ہٹ کر شاعری کی ، ان کا یہی انفراد ان کی شناخت بنا۔ مولانا حسرت موہانی انھیں ’ مصلح طرز لکھنؤ ‘ کہا کرتے تھے۔ صفی نے غزل کی عام روایت سے ہٹ کر نظم کی صنف میں خاص دلچسپی لی۔ انھوں نے سلسلہ وار قومی نظمیں بھی کہیں جو خاص طور سے ان کے عہد کے سماجی ، سیاسی اور تہذیبی مسائل کی عکاس ہیں۔ اس کے علاوہ قصیدہ، رباعی اور مثنوی جیسی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ صفی کی نظمیں اور غزلیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شعوری یا غیرشعوری طور پر لکھنو کی خاص روایتی طرز کو بدلنے کی طرف مائل تھے۔

اشعار
۔۔۔۔۔
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا

مری نعش کے سرہانے وہ کھڑے یہ کہہ رہے ہیں
اسے نیند یوں نہ آتی اگر انتظار ہوتا

کل ہم آئینے میں رخ کی جھریاں دیکھا کیے
کاروان عمر رفتہ کا نشاں دیکھا کیے

جنازہ روک کر میرا وہ اس انداز سے بولے
گلی ہم نے کہی تھی تم تو دنیا چھوڑے جاتے ہو

بناوٹ ہو تو ایسی ہو کہ جس سے سادگی ٹپکے
زیادہ ہو تو اصلی حسن چھپ جاتا ہے زیور سے

دیکھے بغیر حال یہ ہے اضطراب کا
کیا جانے کیا ہو پردہ جو اٹھے نقاب کا

پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے
مرنے کے انتظار میں جینا پڑا مجھے

دیں بھی جواب خط کہ نہ دیں کیا خبر مجھے
کیوں اپنے ساتھ لے نہ گیا نامہ بر مجھے

ختم ہو جاتے جو حسن و عشق کے ناز و ادا
شاعری بھی ختم ہو جاتی نبوت کی طرح

Leave a reply