سرگودھا پولیس کی ناجاٸز اور بے بنیاد ایف آئی آر کاٹنے کی ایک اور داستان

0
62

سرگودھا ( ادریس نواز سے ) تھانہ فیکٹری ایریا میں کاٹی گٸ ایف آٸ آر نمبر 113/20 اور 114/20 ناجاٸز ، بے بنیاد اور حقاٸق سے ہٹ کر ھے ۔ متاثرہ خاندان کی ضلعی اعلیٰ افسران ، منتخب عوامی نماٸندگان ، آٸ جی پنجاب ، چیف سیکٹری پنجاب ، وزیراعلیٰ پنجاب ، اور وزیراعظم عمران خان سے انصاف کی اپیل ۔
تفصیلات کے مطابق :
سرگودھا چک نمبر 54 شمالی کے رہاٸشی عمر حیات اور محمد اظہر 9 مارچ 2020 کو اپنی گاڑی مرمت کروانے سرگودھا شہر آۓ ۔ رات 12 بجے کے بعد ان دونوں کا نمبر بند ہو گیا ۔ 10 تاریخ کو اھل خانہ کو پتہ چلا کہ ان کے بیٹے عمر حیات اور محمد اظہر کو تھانہ فیکٹری ایریا پولیس نے پکڑ لیا ھے ۔ اھل خانہ تھانہ پہنچے تو سب انسپکٹر مجاھد شاہ نے بتایا کہ میں عمر حیات اور اظہر پہ 30 لیٹر شراب و ناجاٸز اسلحہ رکھنے کی دفعات کے تحت ایف آٸ کاٹ رہا ہوں ۔ اھل خانہ ڈی پی او سرگودھا عمارہ اطہر کو پیش ہو کر ساری حقیقت سے آگاہ کیا ۔ اور پھر ایس ڈی پی او سٹی احمد شاہ کو پیش ہو کر ساری حقیقت سے آگاہ کیا ۔ تو اے ایس پی احمد شاہ نے تفتیشی افسر سب انسپکٹر مجاھد شاہ کو طلب کیا اور رپورٹ طلب کی ۔ اس کے بعد اے ایس پی احمد شاہ نے بتایا کہ آپ کے لڑکوں نے رات کو شراب پی ہوٸ تھی ۔ اور انکے پاس سے ناجاٸز پسٹل اور تین بوتلیں شراب بھی برآمد ہوٸ ھیں ۔ جبکہ ایف آٸ آر میں ناجاٸز اسلحہ کی کوٸ بھی دفعات شامل نہیں ھے ۔ اس کے علاوہ عمر حیات اور اظہر کے اھل خانہ کو پورا دن ملاقات بھی کرنے کی اجازت نہیں دی گٸ ۔
عمر حیات اور محمد اظہر کو تھانہ فیکٹری ایریا پولیس نے 9 مارچ 2020 کو رات کو گرفتار کیا ۔ جبکہ ایف آٸ آر میں وقوعہ 10 مارچ کا بتایا گیا ھے ۔ اس کے علاوہ عمر اور اظہر دونوں ایکساتھ پکڑے گۓ تھے جبکہ پولیس نے ایف آٸ آر الگ الگ جگہ سے پکڑنے کی کاٹی ۔ کیا ان پولیس افسران سے کوٸ پوچھنے والا نہیں ۔ کہ جو بتایا گیا اس کے مطابق ایف آٸ کیوں نہیں کاٹی گٸ ۔ کیا پولیس افسران بے گناہ کو گناہگار بنا دیں ۔ تو ان سے کوٸ جواب طلب نہیں کرے گا۔
کیا یہ ھے تبدیلی جو وزیراعظم عمران خان لانا چاہتے تھے ۔ کہ پولیس گردی اتنی زیادہ بڑھ چکی ھے ۔ کہ بے گناہ انسان کو پکڑ کر بھی اس پہ منشیات فروشی اور چوری و ڈکیتی کی ایف آٸ آر کاٹ دی جاتی ھیں ۔ اور جب لواحقین ڈی پی او یا آر پی او کے پاس اپنے بیٹے کی بے گناہی کےلیۓ پیش ہوتے ھیں تو کہا جاتا ھے کہ ایف آٸ آر ہو چکی ھے ۔ اور ایک بے گناہ کو منشیات فروش اور چور و ڈکیت کا خطاب مل جاتا ھے ۔ جسکی وجہ سے اسکی پوری زندگی تباہ ہو جاتی ھے ۔
اور اگر متاثرہ خاندان اپنےمنتخب عوامی نماٸندگان کے پاس جاتے ھیں تو کہا جاتا ھے کہ عمران خان کے ویژن کے مطابق پولیس میں سیاسی مداخلت ہم نہیں کر سکتے ۔
اگر دفتر ٹاٸم کے علاوہ کسی کیساتھ پولیس ظلم و زیادتی کر رہی ہو ۔ اور وہ متاثرہ شخص ڈی پی او ، آر پی او ، اور آٸ جی پنجاب کے ریزیڈنس نمبر پہ کال کر کے اپنا مسٸلہ بتاۓ ۔ تو نہ تو آپریٹر متعلقہ افسر سے بات کرواتے ھیں اور نہ ہی خود متعلقہ تھانہ کو کال کرتے ھیں ۔
اگر پولیس والوں کیخلاف اعلیٰ افسران کو درخواست دی جاۓ ۔ تو سنواٸ نہیں ہوتی ۔ اور وہ تھانہ پولیس خلاف ہو جاتی ھے ۔ اور جھوٹے مقدمہ میں پھنسا دیتی ھے۔
اگر کسی منسٹر کو کال کر کے اپنا مسٸلہ بتایا جاۓ تو وہ بھی نہ تو بات سنتے ھیں ۔ اور کہتے ھیں اپنے متعلقہ ایم پی اے اور ایم این اے سے بات کرو ۔ اور نہ تو وہ بات سنتے ھیں ۔
عمران خان صاحب بڑے پیمانے پر پولیس افسران کی تبدیلیاں تو کر دیتے ھیں ۔ لیکن تھانہ کلچر میں پھر بھی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔
اگر ایک مجبور انسان کی داد درسی کےلیۓ پولیس کے اعلیٰ افسران ، اور منتخب عوامی نماٸندگان تھانہ کلچر میں مداخلت نہیں کریں گے۔ تو غریب انسان کہاں جاۓ اور کس سے انصاف کی اپیل کرے ۔
میری آٸ جی پنجاب ، چیف سیکٹری پنجاب ، وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم عمران خان سے اپیل ھے ۔ کہ ایک منسٹر سے لیکر ایک سپاہی تک کو یہ احکامات صادر کیۓ جاٸیں ۔ کہ جب بھی کوٸ مجبور اپنی داد درسی کےلیۓ رابطہ کرے تو اسکی فوری داد درسی کی جاۓ ۔ تاکہ حقیقی معنوں میں پنجاب پولیس میں تبدیلی آ سکے ۔

Leave a reply