چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی نے اپوزیشن کی صفوں میں کھلبلی مچا دی ہے وہ اپوزیشن جو حجم کے لحاظ سے طاقتور اور بڑی دکھائی دے رہی تھی دراصل وہ سراب تھی، بلاول، مریم، مولانا فضل الرحمان، حاصل بزنجو وغیرہ وغیرہ کے اتحاد کو ان بھان متی کا کنبہ کہا جا رہا ہے اپوزیشن کی سیاست ایک کمزور بیانیے پر کھڑی ہے جس کا تعلق ذاتیات سے متعلق ہے عوامی مسائل کا اس سے دور تک کوئی رشتہ نہیں ہے اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ یہ کھوکھلا بیانیہ نہ تو اپنی سیاسی ساکھ کو راکھ بننے سے روک پا رہا ہے اور نہ ہی اس میں جان ہے
سینیٹ کی بازی پلٹنے کی بڑی وجہ صادق سنجرانی کی اپنی مثبت شہرت اور ایک سال اور پانچ ماہ اس کرسی پر غیر جانبداری سے کئے گئے فیصلے بھی ہیں ان کے حمایتی کو چھوڑیں ان کے مخالف بھی ان کی شرافت اور کردار کی گواہی دیتے رہے خود حاصل بزنجو بھی ان کے اقدار کا دم بھرتے ہیں اس تحریک عدم اعتماد کو شروع سے ہی بلاجواز قرار دیا جاتا رہا ہے
وہ پیپلزپارٹی جو ۱۲ مارچ ۲۰۱۸ کو صادق سنجرانی کو ہیرو قرار دے رہی تھی اور ضیاء کی باقیات کو طعنے دے رہی تھی بلاول خود صادق سنجرانی کی فتح کے جشن میں ٹویٹ کررہے تھے
زرداری بھی نواز شریف کو وکٹری کا نشان بنا کر چڑا رہے تھے اب ایک سال بعد جب ان کے نظریات نے ایک بار پھر جوش مارا تو اسی صادق سنجرانی کے خلاف اب اپنے سینیٹرز کو ووٹ ڈالنے کا حکم صادر کررہے تھے کیا سینیٹرز مٹی کے بت ہیں جو اس لیڈر شپ سے اس یوٹرن پر سوال نہ اٹھائیں اور کیا نون لیگ میں وہ ضیاء کی باقیات بالکل مر چکی ہے جو ایک سال پہلے تک زندہ تھی
اپوزیشن کی بدترین شکست نے نوازشریف کو بھی بڑا دھچکا پہنچایا ہے کیونکہ میر حاصل بزنجو ان کے امیدوار تھے اگر وہ جیت جاتے تو نون لیگ کو اپنی لگاتار قانونی اور سیاسی رسوائی بھول جاتی لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ میر حاصل بزنجو کا انتخاب ایک خاص ذہنیت کا انتخاب تھا جو اس وقت ریاستی اداروں کے خلاف برسر پیکار ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بے نقاب ہو رہی ہیں
وہ میر حاصل بزنجو جو اپنے چھوٹے سے مفاد کی خاطر یہ بھی بھول گئے کہ وہ پاکستان کے ایک ایسے ادارے پر الزام لگا رہے ہیں جو پاکستان کے دفاع کی ضمانت ہے ایسی ذہنیت کے مالک شخص کو کیسے قائم مقام صدر بنایا جا سکتا ہے۔ اگر اس کی تاریخ میں جائیں تو بات نیشنل عوامی پارٹی(NAP) پر پابندی تک جا پہنچتی ہے جس کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے
میں نے جولائی کی بارہ کو یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ یہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی اس کی وجوہات میں ایک نمایاں وجہ یہ بھی تھی کہ اگر اس وقت سینیٹ چیئرمین تبدیلی میں اپوزیشن کامیاب ہو جاتی تو پی ٹی آئی کی حکومت کسی صورت بھی چند ماہ سے زیادہ قائم نہیں رہ پائی گی اگرچہ ابھی بھی ان کے سامنے بیشمار مصیبتیں موجود ہیں لیکن تاحال اس سیٹ آپ کو تمام اداروں کا اعتماد حاصل ہے یعنی حکومت کو اندرونی طور پر خطرہ لاحق نہیں اور معیشت کے بحران سے مقابلے کیلئے ریاست اب کسی طرح بھی مقننہ کے معاملات میں الجھاؤ برداشت کرنے کے قابل نہیں تو میرے خیال میں اس تبدیلی کے حمل میں سب سے بڑی وجہ تو یہی تھی کیونکہ اپوزیشن نے اس تبدیلی کے بعد ایوان زیریں پھر بلوچستان اسمبلی اور پھر پنجاب اسمبلی کی طرف بھی بڑھنا تھا سینیٹ کی کامیابی سڑکوں اور گلیوں میں ان کی حمایت کو پرزور کر سکتی تھی
سینیٹ میں ناکامی سے پہلے وکلا کی تحریک، تاجروں کی تحریک، صنعتکاروں کی تحریک، مذہبی جماعتوں کی تحریک کا بھی حکومت مقابلہ کر چکی ہے جن میں سے تو کچھ ابھی بھی پنپ رہی ہیں لیکن ریاست کے فیصلوں کے آگے کسی کی نہیں چلے گی اگر اصلاحاتی ایجنڈا نامکمل رہا تو اس کا نقصان عوام کو ہی ہوگا جس کے نتیجے میں معاشی بدحالی کا دورانیہ بڑھ جائے گا اور اگر یہ معاملات درست سمت میں بوقت ضرورت چلتے رہے تو یہ دورانیہ زیادہ سے زیادہ ایک سال ہو گا جس کے بعد معیشت سنبھلنے لگے گی
بہرحال کرپٹ اشرافیہ اور سیاسی مافیا کو کسی قسم کی چھوٹ کا فی الحال کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا ایک اور اہم بات آخر میں بیان کردوں کہ وہ حضرات جو جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت کے بارے میں قیاس آرائیاں کررہے ہیں وہ حوصلہ رکھیں “افراد” اداروں سے زیادہ اہم نہیں ہوتے، ابھی اتنا ہی کہوں گا۔