مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا

قانون میں کہاں لکھا ہے کہ بچی ہوئی نشتسیں دوبارہ انہی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی: سپریم کورٹ
0
309
supreme

سپریم کورٹ ، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کیس کی سماعت ہوئی،

دائر اپیل پر سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہیں،وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمیں قومی اسمبلی کے اعدادو شمار دیں، اُن میں سے کتنے آزاد امیدوار ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ چارٹ کے مطابق ٹوٹل قومی اسمبلی میں 82 سیٹس ہیں آپکی مخصوص سیٹیں نیشنل اسمبلی میں کتنی بنتی ہیں تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا 23 ہماری مخصوص بنتی ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا وہ فارمولا بتائیں جس کے تحت 23 بنتی ہیں،بیرسٹر گوہر نے کہا آرٹیکل 51 ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا 51 فارمولا نہیں ہے۔ سات امیدوار تاحال آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا حصہ ہیں؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آزاد جیتے ہوئے اراکین اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی،

مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے بنچ پر اعتراض کیا گیا، وکیل خواتین اراکین اسمبلی نے کہا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کا مقدمہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس پانچ رکنی بنچ سن سکتا، وفاقی حکومت کی جانب سے بھی تین رکنی بنچ پر اعتراض کر دیا گیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان بے کہا کہ اپیلیں لارجر بنچ ہی سن سکتا ہے، عدالت نے بنچ پر اعتراض مسترد کر دیا

انتخابی نشان نہیں ہے تو کیا اس کے امیدوار نمائندگی کے حق سے محروم ہو جائیں گے؟جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے صرف الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آزاد اراکین کو کتنے دنوں میں کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آزاد اراکین قومی اسمبلی کو تین روز میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے تو کیا اس کے امیدوار نمائندگی کے حق سے محروم ہو جائیں گے؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے،دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہ لے اور آزاد جیتے ہوئے اراکین اس جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں کی تقسیم کس فارمولے کے تحت ہوتی ہے، سیاسی جماعت کیا اپنی جیتی ہوئی سیٹوں کے مطابق مخصوص نشستیں لے گی یا زیادہ بھی لے سکتی ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت اپنے تناسب سے زیادہ کسی صورت مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی،

قانون میں کہاں لکھا بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہی سیاسی جماعتوں میں بانٹی جائیں گی؟جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ایک بات تو طے ہے جس جماعت کی جتنی نمائندگی ہے اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ، کیا جس پارٹی سنی اتحاد کونسل کی بات کی جا رہی ہے، وہ رجسٹرڈ ہے؟کیا اُسے انتخابی نشان الاٹ کیا گیا تھا؟ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ جی بالکل سنی اتحاد کونسل رجسٹرڈ ہے اور اسے انتخابی نشان الاٹ کیا گیا تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہی سیاسی جماعتوں میں بانٹی جائیں گی؟ عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کریں گے،

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن حکام کو ساڑھے گیارہ بجے طلب کرلیا،سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو باضابطہ نوٹس جاری کر دیے۔عدالت نے سماعت آج 11:30 بجے تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن حکام کو پیش ہونے کی ہدایت کر دی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سن کر نمٹانا چاہتے ہیں،

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل پر سماعت وقفہ کے بعد شروع ہو گئی،الیکشن کمیشن حکام سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے،سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ سے مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن کے تمام اقدامات کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کردی،جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب اس کیس میں دو اہم سوالات آپ سے پوچھیں گے،سلمان اکرم راجہ کے بعد آپکو سنتے ہیں،

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے کہا کہ سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں اس لیے مخصوص نشستیں نہیں مل سکتی لیکن بعد میں اسے سیاسی جماعت قبول کر کے فہرست جاری کر دی، الیکشن کمیشن کے فیصلے تو آپس میں ہی مطابقت نہیں رکھتے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنے تناسب سے تو نشستیں لے سکتی ہیں،باقی نشستیں انہیں کیسے مل سکتی ہیں؟جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا باقی بچی ہوئی نشستیں بھی انہیں دی جاسکتی ہیں؟قانون میں ایسا کچھ ہے؟ اگر قانون میں ایسا کچھ نہیں تو پھر کیا ایسا کرنا آئینی اسکیم کے خلاف نہیں؟اگر قانون میں ایسا نہیں تو پھر کیا ایسا کرنا آئینی اسکیم کے خلاف نہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن سوموٹو اختیار سے بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہیں جماعتوں کو نہیں دی؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جو کام ڈائریکٹ نہیں کیا جاسکتا وہ ان ڈائریکٹ بھی نہیں ہوسکتا، ایک سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو ان ڈائریکٹ طریقے سے نظر انداز کرنا کیا درست ہے؟

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق تحریک انصاف کی درخواستیں سماعت کےلئے منظور کر لیں ،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر رہے ہیں، تاہم فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینے کی حد تک ہوگی، سپریم کورٹ نے تحریکِ انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق تحریکِ انصاف کی درخواست پر سماعت 3 جون تک ملتوی کر دی

الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشتیں نہ دینے کا فیصلہ دیا تھا،پشاور ہائیکورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا،سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن فیصلہ کیخلاف اپیلیں دائر کیں،اسپیکر کے پی نے پشاور ہائیکورٹ فیصلہ کیخلاف اپیلیں دائر کیں.

اب حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم ہوگی،بیرسٹر گوہر
عدالتی فیصلے کے بعد بیرسٹر گوہر علی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں 180 سیٹیں ہیں، اب حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم ہوگی، خیبرپختونخوا سمبلی سے مخصوص نشستوں پر حلف نہیں لیا گیا،ہم نے کہا تھا صدارتی الیکشن نہ کروائیں ،عدلیہ پر اعتماد ہے درخواست ہے کہ باقی کیسز بھی اٹھائے جائیں،شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سیٹیں دوسری پارٹیوں کو اٹھا کر دے دی گئیں، ہمارے پاس انتخابی نشان نہیں تھا مگر پھر بھی 180 سیٹیں ہم جیت گئے، ہمارے لوگوں کو اٹھایا گیا، گھروں پر چھاپے مارے گئے، اسلام آباد کی تینوں سیٹیں پی ٹی آئی نے جیتیں، مگر کٹھ پتلیوں کو ایم این اے بنا دیا گیا ہے،

آرٹیکل 67 کے مطابق رکن کی قانون سازی کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھایا جاتا،وفاقی وزیر قانون
مخصوص نشستوں کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ فیصلے کی معطلی پر حکومتی مؤقف سامنے آ گیا ،وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کا عدالت عظمیٰ کے عبوری حکم نامے پر بیان سامنے آیا ہے، اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ یہ آئینی تشریح کا معاملہ ہے ، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کے تحت 5 رکنی لارجر بینچ کا معاملے کی سماعت کرنا موزوں ہوتا ،مناسب ہوتا اگر لارجر بینچ ہی کوئی عبوری حکم نامہ بھی جاری کرتا ،یہ آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کی تشریح کا معاملہ ہے، پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار کے معاملے میں امتناع کے حکم سے احتراز برتا جانا چاہیے تھا، منتخب رکن کے قانون سازی کے اختیار پر زد پڑتی ہو تو زیادہ احتیاط برتی جاتی ہے ، آرٹیکل 67 واضح ہے کہ رکن کی طرف سے کی گئی قانون سازی قانونی نااہلیت کے باوجود برقرار رہتی ہے ،آرٹیکل 67 کے مطابق رکن کی قانون سازی کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھایا جاتا، امید ہے حتمی فیصلے میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا،

قومی اسمبلی میں 23 مخصوص نشستوں پر ارکان کی رکنیت معطل ہونے کا امکان
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا حکم نامہ ،قومی اسمبلی میں 23 مخصوص نشستوں پر ارکان کی رکنیت معطل ہونے کا امکان ہے،سنی اتحاد کونسل کے کوٹے کی 23 مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کی گئی تھیں،قومی اسمبلی میں خواتین کی 14 مخصوص نشستیں ن لیگ کو دی گئی تھیں ،خواتین کی چار مخصوص نشستیں پیپلز پارٹی دو جے یو آئی کو دی گئی تھیں،اقلیتوں کی تین مخصوص نشستیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی میں تقسیم کی گئی تھیں،20 اراکین کی معطلی سے حکمران اتحاد کی پارٹی پوزیشن بھی متاثر ہوگی ،اس وقت 227 اراکین پر حکمران اتحاد مشتمل ہے جو کہ20 اراکین کی معطلی کے بعد 207 رہ جائے گی ،حکمران اتحاد کی دو تہائی اکثریت بھی ختم ہو جائے گی،قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا موقف سامنے آگیا ،قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے اس کیس میں ہمیں کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا ۔مخصوص نشستوں پر بعد میں 23 اراکین نے حلف لیا تھا،اس حوالے سے نوٹیفیکیشن الیکشن کمیشن کی طرف سے موصول ہوا تھا ،اب بھی ان اراکین کو معطل کرنے کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن سے آنا ہے،جیسے ہی الیکشن کمیشن کوئی حکم یا نوٹیفیکیشن بھجواتا ہے اس پر عمل ہو گا،

الیکشن کمیشن کی جانب سے براہ راست مخصوص نشستوں کو ڈی سیٹ کرنے کی صورت میں اپیل میں جانے کا امکان
دوسری جانب اسپیکر سندھ اسمبلی نے بھی قانونی ماہرین سے مشاورت کی ہے،شارٹ آرڈر یا تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد اسپیکر سندھ اسمبلی فیصلہ کریں گے ، الیکشن کمیشن کی جانب سے براہ راست مخصوص نشستوں کو ڈی سیٹ کرنے کی صورت میں اپیل میں جانے کا امکان ہے،پیپلزپارٹی کو دو اور ایم کیو ایم کو ایک مخصوص نشست اضافی ملی ،سمیتا افضال سید ، سریندر ولاسائی پی پی جبکہ فوزیہ حمید ایم کیو ایم کی رکن اسمبلی منتخب ہوئی تھیں،سندھ اسمبلی اجلاس میں آئندہ سال کےلیے بجٹ تجاویز پیش کی جائیں گی

بلیک میلنگ کی ملکہ حریم شاہ کا لندن میں نیا”دھندہ”فحاشی کا اڈہ،نازیبا ویڈیو

حریم شاہ مبشر لقمان کے جہاز تک کیسے پہنچی؟ حقائق مبشر لقمان سامنے لے آئے

حریم شاہ کے خلاف کھرا سچ کی تحقیقات میں کس کا نام بار بار سامنے آیا؟ مبشر لقمان کو فیاض الحسن چوہان نے اپروچ کر کے کیا کہا؟

حریم شاہ..اب میرا ٹائم شروع،کروں گا سب سازشیوں کو بے نقاب، مبشر لقمان نے کیا دبنگ اعلان

میں آپکی بیویوں کے کرتوت بتاؤں گی، حریم شاہ کی دو سیاستدانوں کو وارننگ

حریم شاہ کے ہاتھ میں شراب کی بوتلیں اور….ویڈیو وائرل

Leave a reply