شاعر اور ادیب دلوں میں ہمشہ زندہ رہتے ہیں۔
یہ تھا 1964ء کا ایک خوشگوار دن شام کا وقت تھا کہ عبد الرزاق کے آنگن میں ایک بچے نے جنم لیا۔ گھر میں خوشی کا سماں تھا کہ عبد الرزاق کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے لیکن کسی کو علم نہیں تھا کہ صرف بیٹا نہیں بلکہ اردو اور پنجابی ادب کے ایک درخشاں ستارے نے جنم لیا ہے۔ یہ جنم اردو اور پنجابی ادب کے مشہور شاعر اور ادیب محمد لطیف سیف کا تھا۔
محمد لطیف سیف نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سوک خورد سے حاصل کی۔ اس کی کل تعلیم میٹرک تک تھی۔ زیادہ تعلیم نہ کرنے کی وجہ غربت تھی۔ وہ گھر کا بڑا بیٹا تھا اس وجہ سے گھر کی ساری زمہ داری ان کے کندھوں پر تھی۔ کم عمری میں روزی روٹی کی تلاش میں نکلے اور ایک شہر سے دوسرے شہر روزگار کے لیے دھکے کھائے۔ اس سفر میں انھیں سعودی عرب جانا بھی پڑا۔ لیکن اپنے ملک سے محبت نے انھیں واپس بلوایا۔ اور یہاں دوبارہ روزی کی تلاش میں رہے۔ اپنی زندگی کے زیادہ عرصہ غربت اور محنت مزدوری میں گزارنے کی وجہ سے طبیعت میں عاجزی اور انکساری تھی۔ لطیف، انسان تو انسان جانوروں کے درد پر بھی دردمند ہونے والے انسان تھے۔ ان کے عاجزانہ طبیعت کا انکی شاعری پر بڑا گہرا اثر ہے۔ ان کی شاعری میں درد و آہ زیادہ پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں ہمیں محبت اور محبوب کا رنگ بھی ملتا ہے ان کے اشعار میں محبوب کے آگے انداز بھی عاجزانہ ہے وہ محبوب کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ لیکن ان کی شاعری میں ہمیں درد اور غربت کا زیادہ زکر ملتا ہے۔
("غریبوں کو ہر دم ستاتی ہے دنیا
ستم اس طرح بھی یہ ڈھاتی ہے دنیا”)
محمد لطیف سیف کی شاعری میں حمدیں، نعتیں، غزلیں نظمیں وغیرہ شامل ہیں۔
ان کے کلام مشہور گلوکاروں نے گائے ہیں، جن میں ملکہ ترنم میڈم نور جہاں بھی ہیں۔ میڈم نور جہاں نے ان کا پنجابی کلام "جدوں دیاں تیرے نال لڑ گیاہ اکھیاں” گایا ہے۔ ان کے کلام کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے کلام کو سخن شناس پوری دنیا میں سنتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے مختلف گلوکاروں نے ان کے کلاموں کو اپنی آوازوں میں گایا ہے ۔
ان کی شاعری کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ پہلی کتاب "اشک بہاتی تنہائی” جو کہ اردو زبان میں اس کی زندگی میں پبلیش ہوچکی تھی،
("میں بھول ک دنیا والوں سے اک بار بھی شکوہ کیوں کرتا
گر سیف میری بربادی پر نا آشک بہاتی تنہائی”)
جبکہ دوسری کتاب پنجابی زبان میں ہے "مٹی ملیاں سوچاں” اس کے وفات کے بعد پبلیش ہوئ تھی۔ دوسری کتاب مکمل ہوچکی تھی لیکن پبلیش کرنے ابھی نہیں دیا تھا کہ 6 دسمبر 2016 کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے اور رب کائنات خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات کا دن نہ صرف ان کے گھر والوں کے لیے بلکہ سب سخن شناس لوگوں کے لیے تکلیف کا دن تھا۔
اس کے وفات ہونے کے بعد ان کے چاہنے والوں نے ان کے گھر والوں کے ساتھ مل کر ان کی دوسری کتاب شائع کی۔ ان کے چاہنے والے آج بھی ان کے نام کو بڑے احترام سے یاد کرتے ہیں۔ ان کے چاہنے والے اور اردو اور پنجابی ادب کو پسند کرنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی جگہ کبھی کوئی پورا نہیں کر پائے گا۔ ان کی شاعری ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی۔ اللّٰہ ان کی آخری منزل آسان فرمائے۔ اللّٰہ ان کی شاعری کو ہمیشہ زندہ رکھے۔ (امین)
("جان دوں گا میں اس ادا سے اسے
موت دیکھے گی بار بار مجھے”
جو ملا بن کے غمگسار مجھے
کر گیا وہ بھی اشکبار مجھے
زندگی کس طرح کروں گا بسر
غم کی دلدل میں مت اتار مجھے
جان دوں گا میں اس ادا سے اسے
موت دیکھے گی بار بار مجھے
میں خزاں کو دوش دیتا رہا
د
زخم دیتی رہی بہار مجھے۔
ہے عبث سیف یہ مسیحائی
اب نزع کا ہے انتظار مجھے۔” )
________________________
twitter.com/MahiLatief1