شرم و حیا . تحریر: ہیر ملک

0
126

نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِهِ الْکَرِیْمِ… اَمّا بَعْد…

آج کچھ بات کرتے ہیں شرم و حیا اور دینِ اسلام میں اس کی اہمیت پر.

حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ "حیا ایمان میں سے ہے اورایمان جنت میں ہے. بے حیائی بدی میں سے ہے اور بدی جہنمی ہے.” (ترمذی شریف)
یعنی اہلِ ایمان جنتی اور بے حیا جہنمی ہیں.

شرم و حیا عورت کا زیور اور مرد کی زینت ہے. شرم و حیا دونوں ہم معنی الفاظ ہیں جن کا مطلب ہے کہ جس کام میں انسان کو کوئی گُناہ یا بے ادبی معلوم ہو اُس سے پرہیز کرے.

انسان کا یہ فطری وصف ہے جس سے اِس کی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی پرورش ہوتی ہے. شرم و حیا ایک ایسی خوبی ہے جو بہت سے گناہوں سے بچاتی ہے. عفت اور پاکبازی کا دامن اِسی کی بدولت ہر داغ سے پاک رہتا ہے.

حدیثِ قُدسی میں آیا ہے کہ "عزت اور جلال والے رب کو اِس بات سے حیا آتی ہے کہ جب اُس کا کوئی بندہ اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر کچھ مانگتا ہے اور وہ اُن ہاتھوں کو خالی لوٹا دے.” (مسند احمد)

حیا کا فطری وصف اگرچہ اپنی جگہ تعریف کے قابل ہے تاہم وہ کبھی کبھی انسان کے لیے اس وقت مُضر بھی ہو جاتا ہے جب اُس میں بُزدلی اور خوف کا عنصر شامل ہو جاتا ہے اور وہ بہت سے اجتماعی کام محض شرم و حیا کی وجہ سے نہیں کر سکتا. اِس لیے حیا کی حقیقت میں بُزدلی کا جو جُز شامل ہے شریعتِ مطہرہ نے اِس کی اصلاح کی ہے اور وہ یہ ہے کہ امرِ حق کے اظہار میں شرم و حیا دامن گیر نہ ہو. لیکن دوسروں کی مروت سے چُپ رہ جانا ایک قسم کی شرافت ہے جو ایک معنی میں تعریف کے قابل ہے. چنانچہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نہایت شرمیلا اور حیادار تھا. اِس وجہ سے نقصان اٹھاتا تھا. اُس کا بھائی، اُس پر ناراضگی کا اظہار کر رہا تھا. حضور ﷺ نے دیکھا تو فرمایا "اِس پر غُصہ نہ کرو کیونکہ حیا ایمان سے ہے.”

یہی شرم و حیا جو ایمان کا ایک جُز ہے شرعی حیا ہے. یعنی جس طرح ایمان کا مطلب یہ ہے کہ تمام فواحش و منکرات سے اجتناب کیا جائے اِسی طرح شرم و حیا بھی انسان کو اِن چیزوں سے روکتی ہے.

شرم و حیا انسان میں فطری ہوتا ہے اور اگر اِس کی مناسب تربیت کی جائے تو وہ قائم رہتا ہے اور اگر اِس کے خلاف صحبت مل جائے تو اِس کا ساتھ جاتا رہتا ہے. مثال کے طور پر مشرق کی عورت اور مرد میں شرم و حیا ہر معاملہ میں بدرجہ اتم موجود ہے اِس کے برعکس مغرب کی عورت و مرد شرم و حیا سے قطعاً عاری ہیں.

ایک بچہ جس کی تربیت شرم و حیا کے مطابق کی جائے وہ کسی کے اصرار پر بھی اپنے کپڑے اُتارنے کو تیار نہیں ہو گا. مثال کے طور پر کسی بھی بچے کے حساس سَتر کو برہنا کریں گے تو وہ بچہ اس کی مدافعت کرے گا اور کئی بچے تو ہاتھوں سے مزاحمت اور رو کر اس کی مدافعت کرتے ہیں.

رسول ﷲ ﷺ جب بچے تھے تو خانۂ کعبہ کی تعمیر کا کام ہو رہا تھا. آپ ﷺ اینٹیں اُٹھا اُٹھا کر لا رہے تھے. آپ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ نے کہا کہ تم تہمد کھول کر کندھے پر رکھ لو کہ اینٹ کی رگڑ نہ لگ جائے. آپ ﷺ نے ایسا کیا تو آپ ﷺ پر بے ہوشی طاری ہو گئی. ہوش آیا تو زبان پر تھا "میرا تہمد”. حضرت عباسؓ نے تہمد باندھ دیا.

نبوت کے بعد بھی آپ ﷺ کا یہ حال تھا کہ صحابہؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے.

حدیث شریف میں ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: "الحَيَاءُ خَيرٌ كُلُّهٌ” یعنی حیا سراپأ خیر ہے.
یعنی حیا سراسر خیر ہے اور اس میں سو فیصد خوبیاں ہیں.

شرم و حیا کی کئی اقسام ہیں. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا ایمان کی ایک بہت بڑی شاخ ہے.” (بخاری شریف)

​ان اقسام پراگر لکھا جائے تو ایک زندگی چاہیے. انسان کی زندگی کے ہر معاملہ میں شرم و حیا کا دخل ہے. مثلاً لڑکیاں لڑکوں کے ہجوم میں جاتے ہوئے گھبراتی (شرماتی) ہیں. اگر اُن کو کوئی چیز لینی ہے تو صرف شرم و حیا ہی اُن کا رستہ روکتی ہے. اس کے برعکس مردوں کے لیے شرم و حیا یہ ہے کہ وہ عورتوں کا ہجوم دیکھ کر راستہ سے ہٹ جاتے ہیں، نگاہیں جھکا لیتے ہیں یا پھر کام کی جگہ پر عورتوں کو پہلے کام کرنے دیں یا اُن کے لیے کام کرنے کے لیے جگہ بنائیں.

لین دین، رشتہ داری، ہمسائیگی، شہری، دوست، مُلکی دوست، غیر مُلکی دوست، حتی کہ اس کا دائرہ کار تمام انسانیت پر مُحیط ہے.

شرم و حیا ایک مسلمان، کافر کے ساتھ سلوک کرتے ہوئے بھی ملحوظِ خاطر رکھتا ہے. مثال کے طور پر رسولِ کریم ﷺ نے کُفارِ مکہ کے ساتھ ہر معاملہ میں شرم و حیا اور اخلاق کا دامن کبھی نہیں چھوڑا. یہ شرم و حیا ہی تھی کہ فتحِ مکہ کے بعد، عورتوں، بچوں اور ضعیفوں پر ہاتھ اُٹھانے سے سختی سے منع کیا گیا تھا. جس کے گھر کا دروازہ بند ہو اُس پر حملہ کرنے سے منع کیا گیا. اور شرم و حیا کی حد یہ تھی کہ اپنے عظیم دشمن ابو سفیان کے گھر پناہ لینے والے کو بھی معاف کیا.

حضور ﷺ نے زندگی کے ہر معاملے میں، ہر قوم اور ہر نسل کے ساتھ شرم اور حیا کا خیال رکھتے ہوئے سلوک کیا. اگر تمام مسلمان "خصوصاً” اور دوسرے انسان "عموماً” اس پر عمل کرنا شروع کر دیں تو اولادِ آدم ایک قوم بن کر اُبھرے گی.

یہ شرم و حیا کا عمل ہے جس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان سے محبت کرتا ہے. اُس کی مدد کرتا ہے. اُس سے روابط بڑھاتا ہے، رشتہ داریاں پیدا کرتا ہے، تجارت کرتا ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ ملنا جُلنا بڑھاتا ہے.

شرم و حیا صرف ایمان ہی نہیں بلکہ مکمل دین ہے.
حدیثِ قُدسی میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
"ہر دین کی (خاص) عادت ہوتی ہے اور اسلام کی عادت حیا ہے”. (مشکوٰۃ شریف)

یہی انسانیت کی معراج ہے. اگر انسان میں فطرتاً شرم و حیا نہ ہوتی اور وہ اس کی حفاظت نہ کر پاتا تو دُنیا میں آج انسانیت نہ ہوتی بلکہ چنگیزی ہوتی.
جیسا کہ ایک اور حدیثِ قُدسی میں ارشاد کیا کہ”حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے”. (مشکوٰۃ شریف)

ایک اور حدیث میں حیا کی فضیلت اس طرح بیان ہوئی کہ "بے حیائی جب بھی کسی چیز میں ہو گی تو اُسے عیب دار ہی بنائے گی. اور حیا جب بھی کسی چیز میں ہو گی تو اُسے مزین اور خوبصورت ہی کرے گی.” (ترمذی شریف)

انسان کو ﷲ کا شُکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے انسان کو مل کر رہنے کے لیے شرم و حیا جیسا عطیہ عطا فرمایا جس کی وجہ سے وہ آج اشرف المخلوقات ہے.

و آخر دعوانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ…

@heermmalik

Leave a reply