شیخ محمد یونس رحمۃ اللہ علیہ ایک موہوب شخصیت قسط (1) تحریر: محمد صابر مسعود

0
77

١٤٣٨ کیا آیا غضب ہو گیا، محرم سے شوال تک علماء کی ایک لمبی قطار رخصت ہوگئی، پہلے حضرت مولانا عبد الحق صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیو بند نے رخت سفر باندھا پھر حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب، شیخ عبدالحفیظ مکی صاحب، حضرت مولانا ریاست علی بجنوری صاحب اور حضرت مولاناسلیم احمد غازی مظاہری جیسے ہند و پاک کے تقریبا ۲۹ چراغ یکے بعد دیگر ے گل ہوگئے اور "ختٰمه مسک” سال رواں نے جاتے جاتے پھر ایسا چیرا لگایا کہ پوری ہی امت تڑپ اٹھی، حضرت
مولانامحمد یونس صاحب جونپوری شیخ الحدیث مظاہرعلوم ایک بلند مقام محدث تھے جنکی وفات کا غم عجم تو کیا عربوں کوبھی رلا گیا اور ایران و افریقہ تک اس سے متاثر نظر آئے، کچھ ایسی ہی صورتحال بیس سال قبل ١٤١٧ھ میں بھی پیش آئی تھی، جب شیخ عبد الفتاح ابو غدہ حلبی، مولانا محمد منظور نعمانی، مفتی محمود الحسن گنگوہی، مولانا انعام الحسن کاندھلوی اور شیخ بن باز جیسی عظیم المرتبت شخصیات نے ہمیں داغِ مفارقت دیا تھا، یوں تو علم و فضل کے جامع ایک عالم کی موت بھی پورے عالم کی موت ہے لیکن جب وہ پے در پے رخصت ہونے لگیں تو خاصانِ امت کا دل سہم جاتا ہے کہ کہیں یہی تو وہ دور نہیں جس کی بابت رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا ” یقبض العلم بقبض العلماء اوریذهب الصالحون الأول فالأول لقل الحلم”…

حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ کو علمی حلقوں میں امیر المومنین فی الحدیث کہا جاتا تھا وہ علم و فضل میں گزشتہ صدیوں کے علماء کی مثال تھے اور انہیں دیکھ کر امام نووی، ابن دقيق العيد، حافظ ابن حجر عسقلانی، ملاعلی قاری، شیخ علی متقی اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ علیھم اجمعین جیسے بلند مقام محدثین کی یاد آتی تھی ،راقم نے ان کی سب سے پہلی زیارت دیوبند میں کی جب کہ دارالعلوم دیوبند کا طالب علم تھا اور شیخ مرحوم کسی خصوصی مناسبت پر وہاں تشریف لائے تھے، انہیں دیکھتے ہی مدنی گیٹ پر طلبہ کی بھیڑ لگ گئی، ہر ایک ان سے مصافحہ کا خواہشمند تھا لیکن موصوف نے صحتی عوارض کی بناء پر گاڑی سے اترنا مناسب نہ سمجھا اور بیٹھے بیٹھے بڑی قیمتی نصائح فرمائیں، ان کا قد میانہ جسم سڈول، رنگ صاف، پیشانی تابناک، چہرہ روشن، دل خشیت الہی سے لبریز، آنکھیں اشکوں سے نہائ ہوئ، نگاہیں وقار و تمکنت سے معمور، خوبصورت آواز اور دھیمی دھیمی گفتگو ان کا سراپا واقعی
متاثر کر دینے والا تھا، پھر خوش پوشاکی اور سفید رومال نے کشش میں مزید اضافہ کردیا تھا، بے ساختہ دل کے گوشے سے صدا آئی کہ

اس شان عظمت پر کون نہ مر جائے اے خدا

یہ تھی مرحوم سے پہلی ملاقات جس نے ان کی عقیدت و محبت میں مزید اضافہ کر دیا اور وقت کی رفتار کے ساتھ پھر یہ اتنی بڑھی کہ راقم نے بالقصد سفر کر کے ان سے کئی بار ملاقات کی اور اسے ہر مرتبہ ایک نئے سرور کا احساس ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوی جلال، حدیث کے مطابق بہت دور تک پہنچتا تھا اور دوسرے خطوں کے لوگ گھر بیٹھے اس کے اثرات محسوس کرتے تھے، شیخ مرحوم چونکہ حدیث کے شارح، سیرت کے ترجمان اور نبی کے سچے عاشق تھے اسلئے باری تعالیٰ نے انہیں خاتم الانبیاء کی یہ میراث بھی عطا کی تھی، چنانچہ جن واردین و صادرین کو مرحوم کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا وہ یقیناً اس بات کی گواہی دینگے کہ شیخ کی خدمت میں حاضری کے وقت واقعتاً دل دھڑکتا تھا، قدم لرزتے تھے اور بہت ہمت جٹانے کے بعد ہی ملاقات کا حوصلہ ہوتا تھا ۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

@sabirmasood_

Leave a reply