شیخ سعدی کا وزیراعظم عمران خان کو مشورہ —-از—علامہ علی شیرحیدری

0
49

معززقارئین کرام کہتے ہیں‌کہ ایک بادشاہ کی عدالت میں کسی ملزم کو پیش کیا گیا ،بادشاہ نے مقدمہ سننے کے بعد اشارہ کیا کہ اسے قتل کردیاجائے،بادشاہ کے حکم پرجلاد اسے قتل گاہ کی طرف لے کرچلے تو اس نے بادشاہ کوبُرا بھلا کہنا شروع کردیا ،کسی شخص کے لیے بڑی سے بڑی سزایہی ہوسکتی ہےکہ اسے قتل کردیا جائے ،اورچونکہ اس شخص کویہ سزاسنائی جاچکی تھی اس لیئے اس کے دل سے یہ خوف ختم ہوگیا کہ بادشاہ ناراض ہوکردرپے آزارہوگا

بادشاہ نے یہ دیکھا کہ قیدی کچھ کہہ رہا ہے تو اس نے اپنے وزیرسے پوچھا یہ کیا کہہ رہا ہے،؟بادشاہ کا یہ وزیربہت نیک دل تھا اس نے سوچا اگرٹھیک بات بتادی جائے تو بادشاہ غصے سے دیوانہ ہوجائے گا اور ہوسکتا ہے کہ قتل کرنے سے پہلے قیدی کو سخت سے سخت عذاب میں مبتلا کردے ،

وزیرنے جواب دیا جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جوغصے کو پی جانے والے ہیں ، لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں‌،

وزیرکی بات سن کربادشاہ مسکرا اوراس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کردیا جائے ، بادشاہ کا ایک اوروزیرپہلے وزیرکا مخالف اورتنگ دل ،تنگ نظراورسنگ دل بھی تھا وہ خیرخواہی جتانے کے اندازمیں بولا”یہ بات ہرگزمناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیراسے دھوکے میں رکھیں اورسچ کے سوا کچھ اورزبان پرلائیں ،

یہ وزیرکچھ اس انداز سے کہانی سناتا ہے کہ قیدی حضورکی شان میں گستاخی کررہا تھا ، غصہ ضبط کرنے اوربھلائی سے پیش آنے کی اس نے کوئی بات نہیں کی ،

وزیرکی یہ بات سن کرنیک دل بادشاہ نے کہا "اے وزیرتیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اورکینے پرہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی سے بہترہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی

بادشاہ نے کہا کہ یادرکھ !اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس کوئی برائی دورہونے کی امید ہو،

وہ سچ جوفساد کا سبب ہو بہتر ہے نہ وہ زبان پرآئے اچھا ہے وہ کذب ایسے سچ سے جوآگ فساد کی بجائے

حاسد وزیربادشاہ کی یہ بات سن کربہت شرمندہ ہوا ، بادشاہ نے قیدی کوآزاد کردینے کا فیصلہ بحال رکھا اوراپنے وزیروں کونصیحت کی کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے وزیروں کے مشورے پرعمل کرتے ہیں‌،
وزیرروں کا فرض ہے کہ وہ ایسی کوئی بات زبان سے نہ نکالیں جس میں کوئی بھلائی نہ ہو.اس نے مزید کہا کہ "یہ دنیاوی زندگی بہرحال ختم ہونے والی ہے ، کوئی بادشاہ ہو یا فقیرسب کا انجام موت ہے،

اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی شخص کی روح تخت پرقبض کی جاتی ہے فرش خاک پر

حکایت کی اصل روح یہ ہےکہ خلق خدا کی بھلائی کا جزبہ انسان کے تمام جزبوں پرغالب رہنا چاہیے ،اورجب یہ اعلیٰ وارفعٰ مقصد سامنے ہوتو مصلحت کے مطابق رویہ اختیارکرنے میں مضائقہ نہیں

بادشاہ وقت کواپنے آس پاس بیٹھنے والے وزیروں میں ایسے وزیرکی بات پرہمیشہ توجہ دینی چاہیے جس کی سوچ جزبہ دیدنی اورمذکورہ وزیرجیسا ہو

حوالہ : حکایات گلستان سعدی ص نمبر12

ازقلم : علامہ علی شیرحیدری

Leave a reply