سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا،شہباز شریف

0
20

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آ سکتا، برآمدات پر مبنی صنعت، زرعی پیداوار میں اضافہ کیلئے ایگری انڈسٹریل انویسٹمنٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات میں اضافہ اور قابل تجدید توانائی کا حصول ہماری ترجیحات ہیں، قومی ایکسپورٹ صنعتی زونز کے قیام کیلئے سرمایہ کاروں کو مفت اراضی فراہم کریں گے، پالیسیوں میں تسلسل کیلئے میثاق معیشت ناگزیر ہے، ملکی ترقی کیلئے دیہی علاقوں کو ترقی دینا ہو گی، زرعی شعبہ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے، صوبوں کے ساتھ مل کر جامع معاشی پلان بنایا جائے گا، معاشی حکمت عملی کی تیاری میں کاروباری طبقہ سے رہنمائی لی جائے گی۔

پری بجٹ بزنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کانفرنس کے تمام شرکاء کے شکرگزار ہیں، ان کی طرف سے دی جانے والی تجاویز کا خیرمقدم کرتے ہیں، ملکی ترقی کیلئے تاجروں اور ماہرین کی خدمات قابل تحسین ہیں، ان کی طرف سے دی گئی اچھی تجاویز پر حکومت عمل کرے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ 90ء کی دہائی میں پاکستانی روپے کی قدر بھارتی کرنسی سے بہتر تھی، ماضی میں بھارت نے ہمارے ترقیاتی منصوبوں کی تقلید کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملکی ترقی کیلئے دیہی علاقوں کو ترقی دینا ہو گی، دیہات میں شہروں جیسی تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات سے وہاں پر شہر کی طرز پر ترقی کی جا سکتی ہے، دیہی علاقوں سے شہروں میں منتقلی سے شہروں پر بوجھ میں اضافہ ہو گا، پاکستان کی آبادی کا 65 فیصد علاقہ دیہی ہے،

ہم نے یہاں زراعت کو ترقی دینی ہے، دیہات کو ترقی یافتہ پاکستان کا حصہ بنانا ہے، وہاں پر اعلیٰ تعلیم سے یہ ممکن ہے، دانش سکول دیہی علاقوں میں قائم ہوئے جن کا معیار تعلیم ایچی سن کالج کے برابر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جو پاکستان کی معیشت کو ترقی دے سکتا ہے، ہم ساڑھے 4 ارب ڈالر کا پام آئل درآمد کر ر ہے ہیں ، کیا اس کی پیداوار ہمارے ملک میں نہیں ہو سکتی، ہمارے ملک میں کس چیز کی کمی ہے، ہم نے جدید ٹیکنالوجی سے اپنی اجناس بڑھانی ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ زرعی شعبہ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے، معاشی حکمت عملی کی تیاری میں کاروباری طبقہ سے رہنمائی لی جائے گی، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ملکی پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے، 18ویں ترمیم کے بعد وسائل کا زیادہ حصہ صوبوں کے پاس چلا گیا ہے جبکہ وفاق کے پاس کم حصہ رہ گیا ہے، صوبوں کے ساتھ مل کر جامع معاشی پلان بنایا جائے گا، اس کیلئے ہر قدم پر بزنس کمیونٹی کی رہنمائی کی ضرورت ہو گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ زراعت، صنعت اور دیگر شعبہ جات میں ٹاسک فورسز قائم کریں گے تاکہ ایک جامع منصوبہ لے کر آگے بڑھیں، ہم نے ایک سال تین ماہ کی رہ جانے والی حکومتی مدت کیلئے قلیل اور وسط مدتی منصوبے بنانے ہیں، اسی لئے میثاق معیشت کی دعوت دیتے ہیں تاکہ میثاق معیشت کے تحت ایسے اہداف طے کئے جائیں جنہیں تبدیل نہ کیا جا سکے، پالیسیوں میں تسلسل کیلئے میثاق معیشت ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کپاس درآمد کرکے ویلیو ایڈیشن سے زرمبادلہ کما رہا ہے، ہمارے ملک میں 2014ء میں کپاس کی 14 ملین گانٹھوں کی پیداوار ہوئی، بنگلہ دیش کو ہم سے پہلے جی ایس پی پلس کا درجہ ملا، ہمیں اپنی کارکردگی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے شرکاء سے کہا کہ وہ دن رات ان کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہیں، ایسی جامع منصوبہ بندی کی جائے کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں یاد رکھیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ غیر ملکی قرضوں اور خسارے پر بات ہوتی رہے گی، ہم یہاں ایسی بات نہیں کریں گے کہ جس سے پوائنٹ سکورنگ کا تاثر ملے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گوادر میں تمام ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں، شہریوں کوپینے کا صاف پانی نہیں مل رہا، وہاں بجلی نہیں، ایئرپورٹ پانچ سال بعد بھی 36 فیصد مکمل ہوا ہے،

پانی کی اب نئی سکیم بنائی گئی ہے، اس طرح قومیں نہیں بنتیں، بطور قوم باتوں کی بجائے عملی طور پر کام کرنا ہو گا، ہمارے پڑوسی دوست ملک نے اس کے سامنے بندرگاہ بنا لی لیکن ہماری ڈیپ پورٹ ہونے کے باوجود بڑے جہاز یہاں لنگر انداز نہیں ہو سکتے، ہم نے بطور قوم یہ فیصلہ کرنا ہے کہ منصوبے بنا کر ان پر عمل کرنا ہے، ہم مزید وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، پاکستان کو اﷲ نے بہت کچھ دیا ہے۔

انہوں نے شرکاء سے کہا کہ وہ اپنے وقت، صلاحیتوں اور تجربہ سے اس منصوبہ بندی میں مدد کریں، ہمارا مقصد برآمدات بڑھانا ہے، رواں سال 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑی، ایک ارب ڈالر اس پر خرچ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ قیمتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ملک کیلئے استفادہ نہیں کیا جا سکا، ہمارے پاس زرخیز زمینیں ہیں، باصلاحیت اور ہنرمند محنت کش طبقہ ہے، برآمدات کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے، برآمدات بڑھانے کیلئے مؤثر حکمت عملی سے ملکی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں لگنے والے چار پاور پلانٹس میں سے 1250 میگاواٹ کا سستا ترین پاور پلانٹ 2020ء میں فعال ہو جانا چاہئے تھا تاہم یہ منصوبہ ابھی تک فعال نہیں ہو سکا، اس کی تاخیر کا ذمہ دار کون ہے، قوم کو اس کا حساب کون دے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ جتنے اچھے منصوبے بنائیں اگر ان پر عملدرآمد نہیں ہو گا تو بے سود ہیں، افسر شاہی کا یہ رونا جائز ہے کہ انہوں نے کام کیا اور انہیں پکڑ کر نیب کے عقوبت خانوں میں ڈالا گیا، ان بیورو کریٹس نے پاکستان کے اربوں روپے بچائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کانفرنس میں شرکاء کی جانب سے دی جانے والی تجاویز کو حقیقت کا روپ دیں گے۔ وزیراعظم نے اپنی حکومت کی ترجیحات بتاتے ہوئے کہا کہ برآمدات پر مبنی صنعت جس میں ٹیکسٹائل کا اہم کردار ہے وہ اولین ترجیحات میں شامل ہے، زرعی پیداوار میں اضافہ کیلئے ایگری انڈسٹریل انویسٹنمٹ کی طرف جائیں گے،

گلف میں ٹیولپ کے بھرے جہاز پڑوسی ملک سے آتے ہیں، ہمارے پاس انڈسٹری اور ٹیکنالوجی ہو تو ہمارے پھل دنیا کی مارکیٹوں میں بہترین جگہ بنا سکتے ہیں، برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی حکومت کی سب سے بڑی ترجیح ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھیں،

اس کیلئے ترکی، چین اور جاپان سے بات کی ہے، پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہشمند کمپنیوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی وجہ سے رکاوٹیں ہیں، اگر نگرانی اور تڑپ ہو تو پاکستان آگے بڑھے گا، آج ترکی، چین اور جاپان ہم سے ناراض ہیں، گذشتہ حکومت نے دوست ممالک اور سرمایہ کاروں کو ناراض کیا، دوست ممالک سے تعلقات کو نئی جہت دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئی ٹی انڈسٹری کو فروغ دے کر برآمدات کو 15 ارب ڈالر زتک لے جانے کا وزارت آئی ٹی کو ہدف دیا ہے اس کیلئے میں بھی وزیر آئی ٹی کے ساتھ بیٹھوں گا، بھارت کی آئی ٹی کی برآمدات 200 ارب ڈالرز ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں ہماری برآمدات 4 ارب ڈالرز سے بھی کم ہیں، بھارت میں بھی بیورو کریسی کیلئے ہم سے زیادہ سرخ فیتہ ہے تاہم اتنی زیادہ برآمدات کیسے ممکن ہوئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں خصوصی صنعتی زونز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،

ہمیں اس طرف جانا ہو گا، اس کیلئے ہر چیز مکمل میرٹ پر ہو گی، کوئی سٹہ بازی نہیں ہو گی ۔ ماضی میں بنائے گئے صنعتی زونز میں لینڈ مافیا آ گیا، وہاں کوئی انڈسٹری نہیں لگی، جس طرح ہم نے بہاولپور میں سولر انرجی کیلئے اراضی فراہم کی اسی طرح خصوصی اقتصادی زونز کیلئے سرمایہ کاروں کو زمین ڈویلپ کرکے دیں گے اس حوالہ سے مفتاح اسماعیل کو پہلے ہی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں، یہ کاروباری طبقہ پر احسان نہیں بلکہ سرمایہ کاری کیلئے مراعات ہیں، ہمیں اپنی برآمدات بڑھانے کیلئے انہیں مراعات دینا ہوں گی، اہداف متعین کرتے ہوئے برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا،

اگر ہم ایٹمی قوت بن سکتے ہیں تو زرعی اور صنعتی قوت کیوں نہیں بن سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ داسو اور بھاشا ڈیم اگر حکومتی وسائل سے بن جائیں تو یہ بڑی بات ہے، ہمیں قومی مفاد کے منصوبوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بنانا ہو گا، ہمیں قابل تجدید توانائی کے حصول پر توجہ دینا ہو گی، تھر اور بلوچستان میں کوئلہ سے فائدہ اٹھانا ہو گا، اس کیلئے سرمایہ کار تجاویز دیں، شیل اور ٹائٹ گیس کے شعبہ میں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں، تیل و گیس کی درآمد کیلئے سالانہ 20 ارب ڈالر پاکستان صرف کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگا کر سالانہ اڑھائی ارب روپے بچت کی، غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرنا ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے نجکاری کمیشن کا اجلاس طلب کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اتحادی حکومت نے اختلاف رائے کے باوجود قومی مفاد میں کئے جانے والے مشکل فیصلوں کی حمایت کی، انشاء اﷲ یہ دوڑ جیتیں گے، سخت اور مشکل وقت ضرور ہے،

اس ملک میں ہمیشہ غریب طبقہ نے سختی برداشت کی، عوامی فلاحی منصوبوں کے ذریعے غریب آدمی کی قسمت بدل دیں گے، ہم 7 کروڑ افراد کو ماہانہ 2 ہزار روپے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جذبہ ایثار کے تحت ہمیں غریب آدمی کا احساس کرنا ہو گا، رئیل اسٹیٹ کے پاس جو نان پروڈکٹیو اثاثے ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں اراضی محدود ہے اس کو ہم بڑھا نہیں سکتے، بدقسمتی سے ہمارے شہر پھیلتے جا رہے ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں یورپ، چین، ترکی سمیت دیگر ممالک کثیر المنزلہ عمارات کی طرف جا رہے ہیں، ہم نے اس طرف جانا ہے، ہمیں زرعی مقاصد کیلئے اراضی چاہئے،

سیاسی مفادات اور مقاصد کیلئے انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف مؤقف دیں گے، ہم نے ہمیشہ ایک دائرہ میں رہ کر سیاست کی ہے، دوست ممالک کی ناراضگی اور داغ مٹانے ہیں، انہیں اعتماد میں لینے کیلئے کوشش کریں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ جلد پاکستان امریکن بزنس کونسل سے ملیں گے، پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے بڑے مواقع موجود ہیں، وزیرستان سے گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں، اس کو جنگی بنیادوں پر پائپ لائن کے ذریعے قومی گرڈ میں لانے کی ہدایت کر دی ہے اس سے 26 لاکھ ڈالر ماہانہ بچت ہو گی۔

Leave a reply