سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کیا ہورہا. عدالت

0
41

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کیا ہورہا. عدالت

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس عقیل احمد عباسی کا کہنا ہے کہ غیرقانونی تعمیرات کیسز کی بھرمار ہوچکی ہے، پتہ نہیں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ( ایس بی سی اے) میں کیا ہورہا ہے۔ کراچی میں غیرقانونی تعمیرات کے مختلف کیسزکی سماعت ہوئی جس پر جسٹس عقیل احمد عباسی اپنے ریماکس میں کہا کہ غیرقانونی تعمیرات کیسز کی بھرمارہوچکی 10،10سال سے کیسز چل رہے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ لوگ پریشان ہیں، داد رسی نہیں ہورہی پتہ نہیں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ( ایس بی سی اے) میں کیا ہورہا ہے، شکایت کرنے والےضابطوں کی کارروائی مکمل کئے بغیرعدالت آرہے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کسی کوپتہ ہی نہیں غیرقانونی تعمیرات پرعدالت آنے کا کیا طریقہ کار ہے ایک زمانے میں ایس بی سی اے میں شکایت سیل بنانے کا حکم دیا گیا تھا، ایس بی سی اے کوغیرقانونی تعمیرات پرشکایات سننے کا حکم دیا گیا۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
امریکہ یوکرین کو ایف سولہ لڑاکا طیارے فراہم نہیں کرے گا،جوبائیڈن
شاہد خاقان عباسی پارٹی عہدے سے مستعفی ہوگئے
ناسا کا قیمتی دھاتوں پر مشتمل سیارچے پر خلائی جہاز بھیجنے کا اعلان
امریکا پاکستان کی بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد فراہم کرنے کیلئے تیار ہے،وائٹ ہاؤس

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب سن لیں، براہ راست عدالت آنے والے کیسزکو نہیں سنیں گے پہلے ضابطوں کی کارروائی مکمل کریں پھرعدالت سے رجوع کریں۔ عدالت نے وکلا کو ضابطے کی کارروائی کاریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل یرقانونی تعمیرات کیخلاف کیس میں عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے اور دیگر سے جواب طلب کیا تھا جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں گوالیارسوسائٹی اسکیم 33 گلزار یجری میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے اور دیگر سے جواب طلب کیا تھا

عدالت نے صوبائی حکومت اور دیگر فریقین سے بھی 15 روز میں رپورٹ طلب کی تھی ذاکر خاصخیلی ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ سوسائٹی میں گراؤنڈ پلس ون کی اجازت ہے، پلاٹ نمبر 145 پر بغیر اجازت گراونڈ پلیس 3 فلور تعمیر کیے جارہے ہیں۔ وکیل درخواست گزار نے کہا تھا کہ سوسائٹی کے رہائشی پلاٹس پرغیرقانونی تعمیرات کرکے کمرشل استعمال کیا جارہا ہے، ایس بی سی اے کو درخواست دی مگر غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

Leave a reply