پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ صوفی گلوکارہ عابدہ پروین کہتی ہیں کہ ’صوبہ سندھ کا ماحول درگاہ کا ماحول ہے۔ سندھ کے لوگوں کا مزاج اور موسیقی بھی درگاہی ہے۔ میرے والد صاحب میں بھی درگاہ کا ایک رنگ تھا جو پھر ہم سب میں آیا۔
باغی ٹی وی :برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی اردو کو دیئے گئے انٹر ویو میں گلوکارہ عبدہ پروین نے کہا کہ صوفی کلام میں زبان کو سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ چاہے عربی میں ہو، سندھی میں ہو، اردو یا فارسی میں مگر اس کا اثر دل پر ہوتا ہے۔ روح پر ہوتا ہے کیونکہ یہ کلام اللہ کی طرف سے ہے۔
انٹرویو میں سندھ سے تعلق رکھنے والی عابدہ پروین نے بتایا کہ انھیں تین برس کی عمر سے موسیقی کا شوق تھا-
موسیقی کی ملکہ کے حوالے سے مشہور گلوکارہ نے بتایا کہ میرے والد صاحب کا موسیقی کا ایک سکول تھا۔ جہاں پر وہ صوفی اور کلاسیکل میوزک سکھایا کرتے تھے۔ تو میرے ارد گرد ایسا ماحول بھی تھا میرے اندر اللہ سائیں نے صوفی موسیقی کا رنگ اور شوق ڈالا۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں لوگ قوالی پڑھتے ہیں اور انگریز بھی قوالی کی طرف آ رہے ہیں تو اس کو سمجھنے کے لیے کسی زبان کی ضرورت نہیں۔
انٹرویو میں عابدہ پروین نے تصوف اور صوفی موسیقی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’تصوف اللہ کا درد ہے، آپ کو اس کلام سے روحانیت ملتی ہے، جیسے اندر ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے، جیسے روح گم ہو جاتی ہے صوفی کلام پڑھنے سے انسان کسی اور ہی دنیا میں چلا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ روح پنجتن پاک کی محفل میں چلی جاتی ہے اللہ اور بندے کے درمیان میں جو گفتگو ہے وہ اس جہان کی تو بات ہی نہیں بلکہ وہ خدا کی بات کرتے ہیں تو اس میں روح گم ہو جاتی ہے پھر روحانیت کا جو سلسلہ چلتا ہے انسان اسے بیان بھی نہیں کر سکتا، یہ ایک کیفیت ہوتی ہے۔
عابدہ پروین کا ماننا ہے کہ برصغیر کو اولیا اللہ کی طرف سے صوفی موسیقی کا انعام ملا جیسے ہندوستان میں امیر خسرو نے کافی راگ اور ساز بنائے پہلے برصغیر میں پکھاوج ہوتی تھی اس کو طبلے میں تبدیل کر دیا، پھر ستار بنائی۔
انہوں نے کہا کہ انڈیا میں نور الدین چشتی کے مزار میں قوالی چلتی ہے تو وہ صوفی موسیقی کا بہت بڑا مرکز بنا لیکن ہر اولیا کی صوفی میوزک کی اپنی ہی شکل ہے۔ اولیا درد میں گنگناتے تھے لیکن درد کو پڑھنا بہت مشکل ہے اللہ کے درد کو الاپنا بہت مشکل ہے۔
قوالی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عابدہ پروین نے کہا کہ قوالی دراصل ایک کیفیت کا نام ہے، جس کا تعلق درگاہوں سے ہے اور یہ ہر مقام اور کئی زبانوں میں گائی جاتی ہے۔
قوالی کی تاریخ پر مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’حضرت امیر خسرو نے پہلی قوالی عربی میں بنائی تھی جس کے بول کچھ یوں تھے: ’من کنت مولا فھزا علی ان مولا یعنی میں جس جس کا مولا ہوں، اس اس کا علی مولا ہے۔
عابدہ پروین کہتی ہیں کہ حضرت امیر خسرو نے حضور پاک کی نسبت سے یہ کہا اور یہ ایک نعرہ بن گیا۔