ڈھائی ہزار سال قبل ستاروں کی سیدھ میں بنایا گیا مقدس تالاب

0
34

سسلی کے مغربی ساحل پر واقع فونیشین جزیرے کا شہر موتیا طویل عرصے سے آثار قدیمہ کی تحقیق کا مرکز رہا ہے 1920 میں کھدائی کے دورن ایک مصنوعی جھیل دریافت ہوئی تھی جس کے بارے تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ دراصل ایک ’مقدس تالاب‘ تھا جسے ڈھائی ہزار سال پہلے ستاروں کی سمتیں اور سیدھ مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔

باغی ٹی وی :کیمبرج یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والے ریسرچ جرنل ’’اینٹیکیٹی‘‘ (Antiquity) کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق یہ مصنوعی جھیل (جو نئی تحقیق سے ایک مقدس تالاب ثابت ہوئی ہے) مغربی سسلی کے سان پینتالیو جزیرے پر ’موتیا‘ (Motya) نامی قدیم شہر کا حصہ تھی۔

وادی سوات میں بدھ مت کی قدیم ترین عبادت گاہ دریافت

ساتویں صدی قبل مسیح تک، یہ بستی وسطی اور مغربی بحیرہ روم میں ایک وسیع تبادلے کے نیٹ ورک کے ساتھ ایک اہم بندرگاہی شہر کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ نتیجے کے طور پر، موتیا جلد ہی شمالی افریقہ کے ساحل پر آبنائے سسلی کے مخالف سمت میں بڑھتی ہوئی طاقت کارتھیج کے ساتھ تصادم میں آگیا۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط کی طرف، جنرل مالکو کی قیادت میں کارتھیجین افواج نے موتیا کو تباہ کر دیا، لیکن شہر کو تیزی سے بحال کر دیا گیا-

اس وقت شہر کے اندر دیگر یادگار تعمیرات میں دو بڑے مذہبی علاقے شامل تھے، ایک شمال میں اور دوسرا جنوب میں۔ شہر کی دیوار اور دو مذہبی مرکبات کلیدی تعمیر نو کی نمائندگی کرتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ شہر نے کارتھیج کے وسطی بحیرہ روم کے ہم منصب کے طور پر اپنی حیثیت کو مضبوط کیا ہے۔

چین دنیا کی سب سے بڑی ونڈ ٹربائن کے پروٹوٹائپ کی آزمائشیں اگلے سال شروع کر دے گا

موتیا آج سے 2,500 سال پہلے کی فونیقی سلطنت کا اہم شہر تھا جو بندرگاہ کا درجہ بھی رکھتا تھادریافت کے تقریباً 100 سال بعد تک سمجھا جاتا رہا کہ یہ ایک مصنوعی جھیل تھی جسے کشتیوں اور چھوٹے جہازوں کی آمد و رفت کےلیے موتیا شہر کی بندرگاہ سے منسلک کیا۔

دس سال تک جاری رہنے والی نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ خیال غلط تھا اور یہ کوئی مصنوعی جھیل بھی نہیں تھی بلکہ اس کے برعکس یہ ایک بڑا اور مقدس تالاب تھا جس میں ’بآل‘ (Ba’al) کہلانے والے ایک دیوتا کا مجسمہ بھی نصب تھا یہ مجسمہ اس تالاب کے بیچوں بیچ ایک چوکور پتھر پر تعمیر کیا گیا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مجسمہ ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوگیا لیکن اس کے پیروں کے نشانات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

دنیا کی پہلی حنوط شدہ حاملہ مصری ممی دریافت

یہ تالاب موجودہ زمانے میں اولمپکس کے تالاب سے بھی بڑا تھا جسے ایک قریبی چشمے سے پانی فراہم ہوتا تھاتالاب سے نکلنے والی بڑی نالیاں، جنہیں پہلے نہریں سمجھا گیا تھا، نکاسی کےلیے استعمال ہوتی تھیں اور استعمال شدہ پانی کو سمندر تک پہنچاتی تھیں البتہ، ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ معلوم ہوا کہ اس تالاب کو بطورِ خاص ستاروں کی سمتیں اور ترتیب مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔

سال کی کچھ خاص راتوں میں ستاروں کا ایک جھرمٹ اس تالاب کے تقریباً اوپر (بآل دیوتا کے سر پر) آجاتا تھا جس کا عکس اس کے شفاف پانی میں دیکھا جاسکتا تھا ان تمام دریافتوں کے باوجود، ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ آیا ایسے مواقع پر یہاں مذہبی رسومات ادا کی جاتی تھیں یا نہیں۔

انسانی بالوں سے مضبوط سولر سیلوں کی تیاری

بالفرض اگر ستاروں کے سیدھ میں آنے پر یہاں کچھ خاص مذہبی رسومات ادا کی جاتی تھیں تو ان کی نوعیت کیا تھی؟ یہ جاننے کےلیے اس علاقے میں مزید کھدائی اور تحقیق کی ضرورت ہے یہ اور اس جیسی دیگر تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں ستاروں کی سمتوں اور مقامات کی خصوصی اہمیت تھی، جسے ہم نے ابھی دریافت کرنا شروع ہی کیا ہے۔

واضح رہے کہ یہی بات اہرامِ مصر کےلیے بھی کہی جاتی ہے کہ انہیں ستاروں کی سیدھ میں تعمیر کیا گیا تھا البتہ یورپ میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔

آب و ہوا میں تبدیلی اورہرجگہ منفی اثرات کی وجہ سےویسٹرن مونارک تتلیاں ناپید ہونے…

Leave a reply