؎میں بھلا کب تھا سخن گوئی پہ مائل غالبؔ
شعر نے کی یہ تمنا کے بنے فن میرا
حضرت غالب کا تو کیا ہی کہنا۔ مذکورہ شعر میں لفظ سخن پر کچھ دیکھا، سنا اور پڑھا ہے جسے آج قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔فارسی زبان سے اردو زبان میں یہ لفظ آیا ہے اور اس سے مراد نطق، گفتار، قول،معاملہ اور اعتراض و شک ہے۔اگر اس کے مترادفات کی بات کروں تو سنسکرت سے بات، فارسی سے گرفت اور عربی سے کلام کو دیکھا جاسکتا ہے۔سخن کو اگر انگریزی میں دیکھیں تو اس کا مترادف Sayبنتا ہے۔اب اگر اسی Sayکو لے کر چلوں تو یہ لفظ قدیمی جرمن کے لفظ "ساخن” سے نکلا ہے۔ آج کل کہنا کو جرمنی زبان کے لفظ ساگن میں دیکھا جاسکتا ہے۔مجھے انگریزی زبان کا لفظ Saga(لمبی کہانی) اسی ساگن سے ماخوذ لگتاہے۔ قدیمی انگریزی زبان کے لفظ secganکو جرمنی زبان سے لیا گیا ہے جسے saggjanکہتے ہیں اور اس کا مطلب”کہنا”ہی ہے۔یہی بعدمیں seyenہوا اور پھر شکل بدل کر Sayہوگیا۔مفروضے کے مطابق ہندیورپی زبانوں سے قبل کے ایک لفظ Sekwسے اسے لیا گیا ہے جس کے تعلقات جرمنی کے مغربی زبانوں سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اب اگر فارسی و اردو کے سخن کو سامنے رکھ کر قدیمی جرمن زبان کے ساخن پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ کچھ نہ کچھ انسانوں کی طرح ان زبانوں میں بھی مشترکہ رہا ہے جو اپنی شکلیں تبدیل کرتے کرتے ترقی یافتہ تو ہوچکی ہیں لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اصل لیے بیٹھی ہیں۔ ضمناََ عرض کردوں کہ لفظ بات کی اصل "واتترا” ہے جس سے بات نکلا اور پھر اس قدر استعمال ہوا کہ اردو زبان کا ہی لفظ بن گیا اس پر بات کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔سخن کے مرکبات دیکھیں تو سخن سرائی،سخن سنج،سخن سناشی،سخن آرائی،سخن آفرین، سخن پروراور سخن طراز وغیرہ کی ایک لمبی فہرست ہے۔اظہر فراغ کا شعر ہے
؎اس سے ہم پوچھ تھوڑی سکتے ہیں
اس کی مرضی جہاں رکھے جس کو
اس شعر میں لفظ پوچھ کا استعمال تو ہمارے ہاں عام سی بات ہے۔اس پر کبھی غور کرنا گوارا ہی نہیں کیا کہ کون پوچھتا پھرے جہاں بھر سے۔یہ لفظ سنسکرت کے لفظ پرچھاسے بنا ہے۔ رگ وید میں یہ لفظ پرچھتی (وہ پوچھتا ہے)کی شکل میں استعمال ہوا ہے جہاں اس کا ایک اور روپ پرشتابھی ہے۔ ماہرین لغت کہتے ہیں کہ ان لفظوں میں بنیادی لفظ پرچ (Prach) ہے۔ سنسکرت کا یہ لفظ فارسی، پشتو اور روسی زبانوں کے قریب ہے۔ روسی زبان میں پوچھنا Pros ہے جو کہ روسی لفظ Prositبمعنی پوچھنا میں ظاہر ہوتا ہے۔پشتو میں یہی لفظ Pos(پوس)ہے جہاں پر”ر” گرا کر کام چلایا گیا ہے اور پھر اسی سے لفظ تاپوس بن جاتا ہے۔فارسی میں پرسیدن میں یہ شکل مجھے نظرآتی ہے۔ جب ہم روسی Vopros، پشتو تاپوس اور ہندی پرشن کو دیکھتے ہیں تو اردو والا پوچھنا ان کا خونی رشتے دار لگتا ہے۔ میری مونئرولمیزکی لغت کے مطابق پوچھنے اور دریافت کرنے جیسے لفظوں میں مادہPrachضرور آتا ہے۔جرمنی زبان کے Fragen(فراگے) کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ یہ لفظ پہلے Vrage (وراگے)تھا جو Frahen (فراہن) سے بنا تھا۔ اس کا مادہ Prk(پرک) بتایا جاتا ہے جو پرچ کے مشابہہ لگتا ہے۔آگے ایک لمبی فہرست ہے جو کہ انگریزی زبان میں اسی مادے سے الفاظ کو مختلف شکلوں اور معنوں میں ڈھال لیتی ہے۔پشتو زبان کی طرح لاطینی زبان میں بھی "پوس” ملتا ہے جو کہ انگریزی زبان کے لفظ Postulateمیں نظر آتا ہے جوکہ لاطینی Procereسے بنا ہے۔یہ لفظوں کا سمندر تو مزید گہرا ہوتا جارہا ہے اور ہم ابھی اتنے ماہر نہیں ہوے ہیں کہ لمبی تیراکی کرسکیں۔راغب دہلوی کہتے ہیں کہ
؎قطروں سے سمندرکا بنانا نہیں مشکل
قطرے میں سمندرکوسمونے کی ادا سیکھ