خود کلامی ۔۔۔ مریم محمد

اپنے بے ربط اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے کونسا معرکہ سر کرنا ہے تم نے؟؟
یہاں ایک نہیں ہزاروں لکھاری ہیں جو لکھتے ہیں اس میں تمھارے الفاظ کسی پہ کیا اثر انداز ہوں گے؟؟

آخر تمھارے ساتھ مسئلہ کیا ہے ہر وقت کہاں کا غم، کہاں کی سوچ یہ دنیا اس کے لوگ جن کے لیے تمھارا دل تڑپتا ہے یہ تمھیں کچھ نہی سمجھتے۔ تمھاری باتیں ان کے لیے بے معنی ہیں !!! تم لب کھولو یہ سن بھی لیں تو چند دن میں دوبارہ اپنی دنیا میں لوٹ جائیں گے۔ یہ دنیا بڑی مزے کی چیز ہے پیاری چند لمحوں میں انسان کا دل لبھا لیتی ہے !! کبھی کبھار تو بہت بڑے ایمان اور تقوی والے لوگ اس کے آگے اپنا سب ہار دیتے ہیں — یہ نگاہ کو ایسا خیرہ کرتی ہے کہ یہاں رب کے کہے گئے کلمات لوگوں کے دلوں پر اثر کرنا چھوڑ دیتے ہیں —
اور تمھیں لگتا ہے کہ تم نے آواز دی اور دنیا پلٹ آئی۔ لب کھولے اور ہدایت کی روشنیاں بٹ گئیں ؟؟؟؟؟ تم نے کہا اور تمھاری قوم نے صدیوں کے اختلاف بھلا کر حق کے جھنڈے تلے اکھٹے ہونے کا عزم کر لیا؟ یہ سوچیں نظریات اور حق گویائی بہت مہنگی چیز ہے۔ یہ بدلے میں جانوں کی قربانیاں مانگتی ہے۔ چھوڑ دو !!
اس چیز کے لیے تڑپنا کہ ماضی میں بغداد کے گلی کوچوں میں تمھاری قوم نے اجتماعی زندگی پر انفرادی موت کو ترجیح کیوں دی تھی —
چھوڑ دو یہ سوچنا کہ تمھاری قوم کو برسوں سے مذہبی فرقہ پرستی کے نام پر جو زہر پلایا جا رہا ہے اس نے اس مسلم امت کے کتنے نوجوانوں کو نگل لیا چھوڑ دو یہ پریشانیاں اور رونے۔ مجھے سنو میں تمھارا مخلص دوست — میری مانوں ضمیر کا گلا دبا دو بے حس بن جاؤ اور جینا شروع کرو یقین مانو مزے کی دنیا تمھاری منتظر ہے!!

یعنی میرے دوست تم یہ کہنا چاہتے ہو غلامی کی زندگی اپنا لوں میں ؟؟ شعور کا گلا دبا دوں اور اس دنیا کے دھوکے میں مگن ہو جاؤں اور میری قوم ؟؟؟

اپنی قوم کو بھول جاؤں صرف اس لیے کہ وہ بہت کم سنتے ہیں !!!
مجھے علم ہے میرے بے ترتیب الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں یہ بھی علم ہے کہ یہاں ایک نہیں ہزاروں لکھاری موجود ہیں لیکن کروڑوں دنیا پرستوں کے مقابلے میں بہت کم !!!!

حق گویائی اگر جرم ہے تو کیا اس جرم کے ڈر سے انسان عقیدہ چھوڑ دے ؟ نظریات بیچ دے غلامی قبول کر کے طاغوت کے آگے سر جھکا دے؟
نظریات کی کوئی قیمت نہیں ہوتی میرے دوست گردنیں سولی پر چڑھ جاتی ہیں نظریات نہیں بکتے !!!!

ہر وہ شخص جو غلامی کی زندگی کو ترک کر کے خوداری کی موت کو ترجیح دیتا ہے اس کا سب سے بڑا کام یہی ہے کہ وہ اپنی قوم کو غفلت کی نیند سے جگانے میں کامیاب ہو جائے!!
سو میرے دوست مجھے بہکانا چھوڑو مجھے لگے رہنے دو اس بات کا غم نہ کرو کہ قافلہ کتنا کم ہے — انقلاب انسانوں کی بہتات سے نہیں برپا ہوتے انقلاب نظریات پر ڈٹ جانے سے برپا ہوا کرتے ہیں۔

Leave a reply