صومالیہ بنتاپاکستان

تحریر :ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
2011ء میں صومالیہ کو بد ترین خشک سالی کاسامناکرنا پڑا جسے اقوامِ متحدہ نے قحط قرار دیا۔ شدید قحط کے باعث روزانہ سینکڑوں افراد ہلاک ہوتے رہے اوراس طرح 2011ء میں قحط سے ڈھائی لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے۔پھر2020ء میں صومالی حکومت نے بڑھتی ہوئی خشک سالی کی وجہ سے 23 نومبر کو ملک بھر میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا تھا۔صومالیہ میں بھوک کے بحران کی وجہ محض خراب فصلیں، سیلاب اور خشک سالی نہیں بلکہ کرپشن ، بد انتظامی اور ناقص حکومتی نظام کا بھی کا عمل دخل تھا۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا جبکہ اس کے پڑوسی ملک بھارت میں کمی ہوئی ہے۔موجودہ حالات میں پاکستان تیزی سے صومالیہ بننے کی طرف گامزن ہے ،اس کی کئی وجوہات ہیں ان میں سے چند وجوہات کاجائزہ لیتے ہیں۔ شہبازشریف کی حکومت نے مسلسل چوتھی مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے پروزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ عمران خان کی سابقہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرنے کاIMF سے معاہدہ کیاتھا اس لئے ہمیں مجبوراََ قیمتیں بڑھانی پڑیں،جس پر عوام اور اپوزیشن جماعت PTIنے مزمت کی اور کہاکہ اگرہم نے کوئی معاہدہ کیا ہے وہ قوم کے سامنے لایاجائے ،جس پر مفتاح اسماعیل نے پینترابدلاکہ آئی ایم ایف کی کوئی شرط نہیں بلکہ ڈالرکی بڑھتی قیمت اور عالمی منڈی میںتیل کی زیادہ ہوتی قیمتوں کوقراردیا،ان دوماہ میں ان سیاسی ارسطوئوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھاکرعوام کومہنگائی کے سونامی کی خطرناک لہروں میں بیدردی سے پھینک دیا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ سے گڈزٹرانسپورٹ کومجبوراََ کرایوںمیں اضافہ کرنا پڑا، کرایوں کے اضافے سے ہرچیزکی قیمت بڑھ جاتی ہے اور حکومتی پنڈت یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ہم نے عام شہری پرکوئی اضافی بوجھ نہیں ڈالا۔
حکومت کی جانب سے 13 بڑے صنعتی شعبوں سیمنٹ ، ٹیکسٹائل، شوگر ملز، آئل اینڈ گیس، فرٹیلائزر ، ایل این جی ٹرمینلز، بینکنگ، آٹو موبائل، بیوریجزور یسٹورنٹس، کیمیکلز، سگریٹ، سٹیل اور ایئر لائنز پر 10 فیصد پر ٹیکس کے نفاذ سے ان شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کے منافع میں کمی واقع ہو گی جس کے نتیجے میں ملک میں مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے عمل میں کمی اور روز گار کے نئے مواقع نہ پیدا ہونے کے امکانات پیداہوگئے ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 29 فیصد ہے جبکہ ان 13 شعبوں کے علاوہ دیگر شعبہ جات پر 4 فیصد پر ٹیکس عائد ہے جبکہ وفاقی حکومت کے نئے اعلان کے مطابق مذکورہ 13 شعبوں پر 10 فیصد کی شرح سے ایک سال کیلئے سپر ٹیکس عائد کیا گیا ہے، اس وقت ملک میں کارپوریٹ اور دیگر مد میں ٹیکسوں کی شرح لگ بھگ 50 فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ٹیکس نیٹ میں اضانے کی بجائے پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ ڈال دیا جس کے نتیجے میں ملک میں معاشی و اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔ نئے حکومتی اقدامات میں بڑے سیکٹرز پر سپر ٹیکس عائد کرنے کے ساتھ تنخواہ دار طبقے کو بجٹ میں دیا جانے والا ریلیف بھی واپس لے لیا گیا۔سپرٹیکس کے ثمرات عوام تک فوراََ پہنچ گئے،عوام سے ضروریات زندگی بھی چھین لی گئیں۔ملک میں بجلی نام کوبھی نہیں ہے اوپرسے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ عوام پرایٹم بم گرانے کے مترادف ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے،جس کی 70فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی اور زراعت سے وابستہ ہے اورزراعت کوپاکستان کی ریڑھ کی ہڈی قراردیاجاتا ہے موجودہ حکومت نے زراعت سے وابستہ کسان کو زندہ درگورکردیا۔اپنی مخلوط حکومت بچانے کیلئے جنوبی پنجاب کی نہروں کاپانی بند کرکے سندھ کودیاجارہاہے ،ہم یہ نہیں کہیں گے کہ سندھ کوپانی کیوں دیاجارہاہے سندھ بھی پاکستان ہے وہاں کے کسان بھی ہمارے اپنے ہیں لیکن ہم صرف اتنا گذارش کریں گے منصفانہ تقسیم کے فارمولاپرعملدرآمدکرتے ہوئے سندھ کواس کے حصے کاپانی دیاجائے اورجنوبی پنجاب کے کسان سے سوتیلی ماں کاسلوک روانہ رکھاجائے ،جس طرح سندھ،اپرپنجاب یادوسرے صوبوں کے کسانوں کوان کے حصے کاپانی دیاجارہا اِدھرکاکسان بھی اتناہی حقدار ہے ، ان کی زمینوں کوسیراب کرنے والی نہریں بند کیوں ہیں۔حکومت کی بے ترتیبی اورناکام حکمت عملی کی وجہ سے ہماراکسان زبوں حالی کاشکارہے۔بجلی مہنگی،پٹرول ،ڈیزل مہنگااورکھادنایاب ہوچکی ہے ،پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے کسان کی کمرتوڑدی گئی ہے ،پانی نہ ہونے کی وجہ سے اس باردھان ،کپاس،جوارودیگرفصلیں کاشت نہ ہوسکیں کیونکہ ہمارے 90فیصد کسان پیٹرانجن کے ذریعے ٹیوب ویل چلاکر اپنے کھیت سیراب کرتے ہیں،کھیتوں میں ہل چلانے کیلئے ٹریکٹراستعمال ہوتے ہیں کھیت سے منڈی تک سبزیوں اوراناج کی ترسیل بھی ٹریکٹرٹرالی کے ذریعے ہوتی ہے ،پیٹرانجن اورٹریکٹرڈیزل پرچلتے ہیں موجودہ حالات میں ہماراکسان مہنگے داموں ڈیزل خریدنے سے قاصر ہے،بجلی مہنگی ہے لیکن ہے ہی نہیں کئی کئی گھنٹوں کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ نے رہی سہی کسربھی پوری کردی ہے ،حکومتی سرپرستی میں پلنے والے کھاد مافیاء نے کھاد اپنے گوداموں میں چھپارکھی ہے جوکسانوں کو من مانی قیمت پر بلیک میں فروخت کررہے یاپھرحکومتی اداروں کی سرپرستی میں سٹاک شدہ کھادافغانستان سمگل کی جارہی ہے۔اندھے حکمرانوں کوہمارے کسان کے مسائل نہیں دکھائی دے رہے،جب کسان کے پاس فصلیں کاشت کرنے کیلئے وسائل نہیں ہوں گے تووہ کس طرح فصلیں کاشت کریں گے ۔جب فصلیں کاشت نہیں ہوں گی تولازمی طورپرمارکیٹ میں اجناس کی قلت ہوگی اورقیمتیں بڑھ جائیں گی پہلے بھی غریب اور مزدور،دیہاڑی دار طبقہ اس ہوشرباء مہنگائی کے ہاتھوں پس چکا ہے وہ کس طرح بلیک مارکیٹ سے مہنگی اشیاء خرید پائیں گے ۔ اتحادی حکومت کوہوش کے ناخن لینے چاہئیں کسان اور دیہاڑی دارمزدورطبقے کااحساس کرتے ہوئے اس بے لگام مہنگائی کے آگے بند باندھنا بہت ضروری ہے ۔فصلیں کاشت کرنے کیلئے ہمارے کسان کیلئے علیحدہ سے بجلی ،ڈیزل اور کھادکیلئے سپیشل بجٹ مختص کیا جائے ورنہ فصلات کاشت نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں اناج کی قلت پیداہونے کا خطرہ ایک اژدھاکی طرح پھن پھیلائے کھڑاہے ،اگر بروقت اقدامات نہ کئے گئے توپاکستان کوقحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔صومالیہ کو کئی سالوں کی خشک سالی اور بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط کاسامنا کرناپڑا، اس وقت پاکستان صومالیہ بننے کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے۔ اگرپاکستان میں قحط آتاہے تویہ قحط قدرتی نہیں بلکہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کاشاخسانہ ہو گا۔

Leave a reply