خود کشی ایک خوفناک المیہ—-از– جویریہ چوہدری

0
44

زندگی ایک ایسی گراں قدر اور انمول نعمت ہے کہ ہماری کامیابی کا دارومدار اس نعمت سے وابستہ ہے کہ ہم اس زندگی میں کیا کیا خوش رنگ اعمال کی کشیدہ کاری کر گئے۔۔۔؟؟
زندگی ہر انسان کو پیاری ہوتی ہے ایک کانٹا چبھنا انسان پسند نہیں کرتا تو آخر کیا وجہ ہے کہ اس انتہائی قیمتی زندگی کو انسان اپنے ہاتھوں سے ختم کر ڈالے۔۔۔۔؟؟؟
یہ ایک خوفناک المیہ ہے جو بتدریج ہمارے معاشرے میں سرایت کرتا جا رہا ہے اور ہر روز ہمارے اخبارات کی خبریں صبح صبح ہی دل افسردہ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔۔۔۔
اس بات کا پتہ چلانا بہت ضروری ہے کہ انسان اپنی جان کا دشمن کیوں بن جاتا ہے؟
یہ عمل تشدد،عدم برداشت اور ضمیر مردہ ہو جانے کا انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔۔۔
اور اسے ہی خود کشی کہا جاتا ہے۔۔۔۔
یعنی اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ۔۔۔
چاہے وہ گلے میں پھندا ڈال کر ہو۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔زہر کا پیالہ پی کر۔۔۔
آگ سے خود کو جلا لینا ہو یا پانی میں کود جانا۔۔۔۔
اپنے ہی پسٹل یا ہتھیار کو خود پر تان لینا ہو یا کسی بلند عمارت سے زندگی کے خاتمہ کے لیئے چھلانگ لگا دینا ہو۔۔۔۔
یہ تمام پہلو انتہائی تکلیف دہ ہیں اور کسی بھی معاشرے میں افسردگی کی بڑھتی شرح کا واضح بڑھتا گراف بھی۔۔۔۔
غیر مسلم ممالک میں خود کشی کا رجحان بہت زیادہ ہے اور وہ اس زندگی کے خاتمہ کو دکھ سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔۔۔۔لیکن اسلام ایک انسانیت پرور دین ہے۔۔۔۔سلامتی وسکون کا دین ہے۔۔۔۔محبت و اخوت کا دین ہے۔۔۔
جو ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف سمجھتا ہے۔۔۔
اور ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دے وہ اپنے ماننے والوں کو اپنی ہی جان سے کھیلنے کی تعلیم کیسے دے سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللّٰہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
"ولا تقتلو انفسکم۔۔۔۔(النسآ :29)
مفسرین کے نزدیک اس آیت میں تین مطالبے ہیں۔۔۔
خود کشی کا ارتکاب نہ کرنا۔۔۔
معصیت کا ارتکاب کر کے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالنا۔۔۔
کسی مسلمان کی جان نہ لینا۔۔۔
کہ یہ سب کبیرہ گناہ ہیں۔۔۔۔
مگر افسوس کہ آج ہم نے اپنی روح افزا تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر فلمی سین آزمانے کو اپنی زندگی کا حاصل بنا لیا ہے۔۔۔
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص اپنا گلا گھونٹ کر مارے وہ دوزخ میں بھی ایسا ہی کرتا رہے گا اور جو خود کو کسی ہتھیار سے مار ڈالے،وہ دوزخ میں بھی خود کو ایسے ہی مارتا رہے گا۔”
(صحیح بخاری)۔
یعنی ہمارا دین خود کشی کو ایک حرام فعل کہہ کر اپنے دامن کو اس کی آلودگی سے پاک صاف رکھنے کا حکم دیتا ہے۔۔۔ !!!!
یعنی کتنے گھاٹے کا سودا ہے کہ محض چند منفی جذبات کا شکار ہو کر انسان خود کو ابدی خسارے میں مبتلا کر دے؟؟؟
کسی ایک خواہش کے پورا نہ ہونے پر زندگی کے انمول ہیرے کو ریزہ ریزہ کر ڈالے۔۔۔؟

آج ہمارے اندر خود کشی بڑھنے کی وجوہات کون سی ہیں ؟
ہم ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے چلیں کہ
جب انسان اللّٰہ کی رحمت سے مایوس ہو جاتا ہے۔۔۔
تو وہ ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے۔۔۔جبکہ وہ اپنی رحمت سے نا امید ہو جانے والوں کو خسارہ پانے والے کہتا ہے اور فرماتا ہے
لا تقنطو من رحمۃ اللہ۔۔۔۔(الزمر)۔
انسان جب قضا و قدر کے بارے میں بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے تو وہ اس فعل کا ارتکاب کرتا ہے۔۔۔۔
حالانکہ اس کا نظام مبنی بر انصاف ہے اور جو شخص جس قابل ہے اسے اس کی نعمتیں مل رہی ہیں۔۔۔۔
مال و دولت کی کمی پر بھی کئی انسان دل برداشتہ ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔۔۔
جبکہ ہمارا دین مشکلات کو صبر سے برداشت کرنے اور عسر کے بعد یسر کی دلنشین اور امید بھری تعلیم دیتا ہے۔۔۔۔
یہ دنیا کا سرکل ہے جو چلتا رہتا ہے۔۔۔۔کبھی خوشحالی،کبھی تنگدستی لیکن اس سلسلے میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لینا انتہائی منفی سوچ اور خود کو شدید نا امیدی کی کیفیت میں چھوڑ دینا ہے۔۔۔۔
کیونکہ انسان کسی نفسیاتی دباؤ اور خواہش نفسانی کے تحت ہی خود کشی کرتا ہے۔
غیر اللہ سے تعلق جوڑنا بھی انسان کو مایوسی میں مبتلا اور خود کشی پر آمادہ کرتا ہے۔۔۔۔
اسی طرح جعلی عاملوں کی من گھڑت باتوں پر یقین کر لینا اور خود کو بس بد قسمت ہی تصور کرتے رہنا۔۔۔ !!!!
حقوق العباد کی پامالی بھی انسان کو منفی دباؤ میں دھکیل دیتی ہے اور وہ تنگ دل ہو جاتا ہے۔
معاشرتی و سماجی رویوں کی نا ہمواری بھی انسانوں کو مایوس کرتی ہے۔۔۔اور وہ اپنے سے روا رکھے جانے والے سلوک سے ہار کر خود کشی کر لیتے ہیں۔
چھوٹے چھوٹے مسائل کو ذہن پر سوار کر لینا۔۔۔
کبھی عشق میں ناکامی اور کبھی امتحان میں ناکامی پر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنا۔۔۔
کبھی شوہر کی ڈانٹ پر بیوی اور کبھی بیوی کی ناراضگی پر شوہر کا اپنی زندگی کا خاتمہ۔
والدین کی تنبیہہ پر اولاد کی خود کشیاں اور سسکتی اولاد کے والدین کی خود کشیاں۔۔۔۔
یہ سب معاشرتی المیے ہیں۔۔۔
دنیا کے سبھی مذاہب کی تعلیم میں خود کشی کی ممانعت ہے مگر سب مذاہب کے پیروکار اس سے نجات بھی نہیں پا رہے تو کوئی وجہ تو ہے جسے ہم اپنی زندگیوں سے خارج کر دیتے ہیں۔۔۔؟
سب سے پہلے والدین کو چاہیئے کہ گھر کے ماحول میں ایسی تربیت اور انداز شامل کریں کہ جس سے بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب نہ ہونے پائیں۔۔۔
ان کی جائز اور شرعی حقوق کا دفاع کیا جائے اور مقدور بھر مسائل کو اپنی ذمہ داری میں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔۔۔
ان کی پریشانیوں کو سمجھا اور سنا جائے۔۔۔۔ان کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھی جائے۔
کیونکہ آجکل ٹین ایجرز میں یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔۔۔۔
منفی خیالات اور رویوں کا خاتمہ۔۔۔وہ چاہے گھر ہوں یا ادارے،
میڈیا ہو یا ایوان۔۔۔۔
مثبت سوچ اور اندازِ فکر کو فروغ دینے والی سرگرمیوں کا اجراء۔

منفی خیالات اور اسباق پر مشتمل چیزوں کی تشہیر کی ممانعت ہو۔

خود کشی کے رجحان کو کم کرنے کے لیئے معاشی نا ہمواریوں کے خاتمے کے اقدامات کیئے جائیں۔

صاحب حیثیت افراد اپنے ارد گرد کے مستحقین پر نظر اور خیال رکھیں۔۔۔۔اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر بھی سوچیں اور دیکھیں۔۔۔تاکہ معاشرہ میں مثبت رویوں کو فروغ ملے۔۔۔۔ہمدردی و غمگساری کے جذبات پیدا کیئے جائیں۔

اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔
تعلیمی اداروں میں میں نوجوانوں کے زہن صاف کیئے جائیں اور انہیں بتایا جائے کہ خود کشی مسائل کا حل نہیں بلکہ دائمی عذاب ہے۔۔۔۔ایسی سوچ اور سرگرمیوں پر قابو پایا جائے جو تعلیمی اداروں میں بھی خود کشی کی وجہ بنتی ہیں۔۔۔اور اسے سب جانتے ہیں۔۔۔۔
خواتین کے لیئے ہر جگہ عزت و احترام والے جذبات کی تعلیم و تربیت کو عام کیا جائے۔۔۔ !!!

مضبوط عزائم اور ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھنے کا جذبہ بیدار کیا جائے۔۔۔
راستے کی مشکلات کو کاٹنے اور ان پر قابو پانے کے گُر اور متبادل راستوں کی طرف راہ نمائی کی جائے۔۔۔۔تاکہ سوسائٹی سے مایوسی،ناشکری اور پست ہمتی کا تدارک کیا جا سکے اور جسمانی و روحانی طور پر ایک مضبوط قوم تیار ہو،
اور خوب صورت زندگیوں کا زیاں نہ ہو۔۔۔۔ !!!آمین۔

خود کشی ایک خوفناک المیہ
بقلم:(جویریہ چوہدری)۔

Leave a reply