کسی کی جیت ہوئی نہ ہار، حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہے ، شہزاد اکبر

0
31

کسی کی جیت ہوئی نہ ہار، حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہے ، شہزاد اکبر

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برئے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہے، کسی کی جیت ہوئی نہ ہار، عدالت نے کہیں بھی بدنیتی کا لفظ استعمال نہیں کیا، عدلیہ کی آزادی اور بالادستی سب سے مقدم ہے۔

معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہوگی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر مزید کوئی بات نہ کی جائے۔ تفصیلی فیصلہ جو بھی آئے گا، وہ ہماری لیے ایک رہنمائی ہوگی۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ججز سے متعلق معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل دیکھے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 9 کے تحت تین طریقوں سے ججز سے متعلق سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص سپریم جوڈیشل کونسل کو معلومات بھیج سکتا ہے۔ دوسرا طریقے کے تحت حکومت کی جانب سے صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے ہیں جبکہ تیسرے طریقہ میں سپریم جوڈیشل کونسل از خود نوٹس لے سکتی ہے۔

قانون آرڈیننس کے ذریعے بنانے ہیں تو پارلیمان کو بند کر دیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس

جوڈیشل کونسل کے خلاف سپریم کورٹ کا بینچ تحلیل

کسی جج پر ذاتی اعتراض نہ اٹھائیں، جسٹس عمر عطا بندیال کا وکیل سے مکالمہ

ججز کے خلاف ریفرنس، سپریم کورٹ باراحتجاج کے معاملہ پر تقسیم

حکومت نے سپریم کورٹ‌ کے سینئر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا

حکومت نے یہ کام کیا تو وکلاء 2007 سے بھی بڑی تحریک چلائیں گے،وکلا کی دھمکی

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی میدان میں‌ آگئے، ریفرنس کی خبروں‌ پر صدرمملکت کوخط لکھ کر اہم مطالبہ کر دیا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جائیداد کے اصل مالک ہیں یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے سب بتا دیا

صدارتی ریفرنس کیس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ پیش ہو گئے،اہلیہ کے بیان بارے عدالت کو بتا دیا

منافق نہیں، سچ کہتا ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ،آپ نے کورٹ کی کارروائی میں مداخلت کی،جسٹس عمر عطا بندیال

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ یہ کسی کی جیت یا کسی کی ہار نہیں ہے۔ یہ وہ عمل ہے جوجمہوری دور میں ہوتا ہے۔ ہر سوال کا جواب ہے، مگر سوال کا جواب نہ دینے کا مقصد کسی بھی تنازع میں نہ پڑنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جو بھی رپورٹ ہوگی، اس کو اب سپریم جوڈیشل کونسل دیکھے گی۔ حکومت اس فیصلے سے مطمئن ہے، یہ ایک بہت احسن فیصلہ ہے۔ رپورٹ حکومت کو نہیں بلکہ سیدھی سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری کو بھیجی جائیگی۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بحیثیت وکیل ہم سب کے نزدیک عدلیہ کا احترام اور آزادی مقدم ہے۔ آئین کی بالادستی کے لئے عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کا علیحدہ علیحدہ ہونا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا،عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ایف بی آر جسٹس قاضی عیسیٰ کی اہلیہ کو پراپرٹی سے متعلق 7 روز میں نوٹسز جاری کرے،ایف بی آر کے نوٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سرکاری رہائشگاہ بھجوائے جائیں،ہر پراپرٹی کا الگ سے نوٹس کیا جائے،ایف بی آر کے نوٹس میں جج کی اہلیہ اور بچے فریق ہوں گے،ایف بی آر حکام معاملے پر التوا بھی نہ دیں،انکم ٹیکس 7 روز میں اس کا فیصلہ کرے.

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ان لینڈ ریونیو کا کمشنر تمام فریقین کو سنے گا،انکم ٹیکس کمشنر قانون کے مطابق فیصلہ کرے،ایف بی آر 7 دن میں سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ جمع کرائے،چیئرمین ایف بی آر تمام تر معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کو فراہم کرے گا،فیصلہ فل کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے سنایا

جسٹس مقبول باقر،جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں اضافی نوٹ لکھا،عدالت نے مختصر فیصلے میں مزید کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم ہمیشہ کےلیے کھلا ہے،سپریم کورٹ کا جج دیگر شہریوں کی طرح حقوق رکھتا ہے،عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا جاری شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیا ، عدالت نے مختصر فیصلہ جاری کیا

سپریم کورٹ کا کمرہ نمبر ایک کچھا کھچ بھر ا ہوا تھا، سابق وفاقی وزیر قانون اور وفاق کے اس کیس میں وکیل فروغ نسیم ،وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اٹارنی جنرل بھی کمرہ عدالت میں پہنچ چکے تھے پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی بھی کمرہ عدالت میں پہنچ چکے ہیں،

Leave a reply