سپریم کورٹ بار نے تصادم روکنے کی آئینی درخواست دائر کردی
اسلام آباد ہائیکورٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے جلسے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست ہدایت کے ساتھ نمٹا دی ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، حکومتی جماعت ہو یا کوئی اور، شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے،وکیل نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن نے جلسوں کا اعلان کیا ہے، ٹکراؤ کا خدشہ ہے،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہرمن اللہ نے درخواست گزار وکیل سے استفسار کیا کہ ٹکراؤ کیوں ہو گا؟ وکیل نے عدالت میں کہا کہ ایک دن اور ایک وقت میں سب اکٹھے ہو رہے ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ یہ عدالت اس میں کیا کر سکتی ہے؟ یہ عدالت متعلقہ فورم نہیں ہے انتظامیہ نے اجازت دینے کا فیصلہ کرنا ہے یہ عدالت رسک اسسمینٹ تو نہیں کر سکتی، یہ تو متعلقہ اتھارٹی کا کام ہے جن کی ذمہ داری ہے سیکیورٹی کا تعین بھی تو وہی کرتے ہیں،
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک اجازت تو نہیں دی گئی، اگر کوئی تقصان ہوتا ہے تو سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی اسلام آباد ذمہ دار ہونگے، 2014میں بھی اس نوعیت کی ایک درخواست اس عدالت کے سامنے آئی تھی،عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ جنہوں نے اجازت دینی ہے ذمہ داری بھی انکی ہے،
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اگر انتظامیہ کی نااہلی سے نقصان ہوتا ہے تو پھر کیا ہو گا،جس پر عدالت نے کہا کہ پھر آپ درخواست دائر کریں کہ یہ نقصان ہوا ہے عدالت ذمہ داری فکس کریگی،
قبل ازیں سپریم کورٹ بار نے تصادم روکنے کی آئینی درخواست دائر کردی ,درخواست میں وزیر اعظم ،اپوزیشن لیڈر اور اسپیکر قومی اسمبلی کو بھی فریق بنایا گیا ہے، درخواست گزارنے کہا کہ سپریم کورٹ تمام ریاستی حکام کو آئین کے مطابق عمل کرنے کا حکم دے، سپریم کورٹ تمام ریاستی حکام کو آئینی حدود میں رہنے کا حکم دے، اسلام آبا دمیں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کا حکم دیا جائے، عدم اعتماد کا عمل پر امن انداز سے مکمل ہو،عدم اعتماد معاملے پر سیاسی جماعتوں میں ممکنہ تصادم کاخدشہ ہے عدم اعتماد آرٹیکل 95کے تحت وزیراعظم کوہٹانے کا آئینی راستہ ہے سپریم کورٹ اسٹیک ہولڈرز کو عدم اعتماد کا عمل پر امن انداز سے مکمل ہونے کا حکم دیں، درخواست میں وزارت داخلہ،دفاع،آئی جی اسلام آباد،ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا گیا ہے
فرمائشی پراکسی پیٹیشن دائر!!
سپریم کورٹ،عدم اعتماد معاملہ پر سیاسی جماعتوں میں تصادم کا معاملہ
سپریم کورٹ بار نے تصادم روکنے کی آئینی درخواست
عدم اعتماد کا عمل پر امن انداز سے مکمل ہو
عدم اعتماد آرٹیکل 95 کے تحت کسی بھی وزیر اعظم کو ہٹانے کا آئینی راستہ ہے، درخواست pic.twitter.com/h3b3i6UBUl— M Azhar Siddique (@AzharSiddique) March 17, 2022
قبل ازیں صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون کا کہنا تھا کہ ہررکن اسمبلی کا آئینی حق ہے کہ وہ پارلیمنٹ جائے اور اپنا ووٹ کاسٹ کرے ریاست ذمے دار ہے کہ اسے سکیورٹی دے ،کوئی بھی ایم این اے کو نہیں روک سکتا، وکلا کے اعلئ قیادت کی میٹنگ کے بعد صدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن احسن بھون نے وائس چیرمین پاکستان بار کونسل کے ہمراہ پریس کانفرس کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عدم اعتماد لانا اپوزیشن کاجمہوری حق ہے۔اس مسئلے کو جمہوری طریقے سے حل ہونا چاہئے اسپیکر آئین کے مطابق چلے
واضح رہے کہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا رکھی ہے،تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 28 مارچ کو ہو گی، 27 مارچ کو ڈی چوک پر تحریک انصاف نے جلسے کا اعلان کر رکھا ہے جس سے وزیراعظم عمران خان خطاب کریں گے جبکہ 25 مارچ کو اپوزیشن اتحاد نے بھی اپنے کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کا کہہ دیا ہے،مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ڈی چوک 25 مارچ کو پہنچیں گے اور کب تک وہاں بیٹھنا ہے اسکا فیصلہ اسی روز کریں گے،
پارلیمنٹ لاجز کے کمروں میں کیا کرتے ہو،مجھے سب پتہ ہے، مولانا فضل الرحمان
عمران خان نے رابطہ کیا تو مولانا کیا ردعمل دیں گے؟ مولانا فضل الرحمان کا تہلکہ خیز انٹرویو
لندن سے بانی متحدہ کو لاسکتا ہوں اور نہ ہی نوازشریف کو،شیخ رشید کی بے بسی
بھٹو کو پھانسی ہوئی تو کچھ نہیں ہوا،یہ لوگ بھٹو سے بڑے لیڈر نہیں، شیخ رشید
شیخ رشید یاد کرو وہ وقت…مونس الہیٰ نے کھری کھری سنا دیں
پارٹی سے بیوفائی کرنیوالوں کو غدارلکھ کر پوسٹرز لگائیں گے،شہباز گل
عمران خان لوگوں کی بجائے اپنے ایم این ایز کو اکٹھا کریں،خواجہ سعد رفیق کا چیلنج
آنے والے دن پاکستان کے مستقبل کیلئے فیصلہ کن دن ہیں، وزیراعظم