کئی کروڑ سال پہلے جب انسان تھے ہی نہیں اور زمین پر جراسک ایرا یعنی ڈائنوسارز کا دور تھا تو میکسکو کے قریب ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بڑا شہابیہ ٹکرایا۔
اس کائنات میں کھربوں کھربوں کی تعداد میں ستارے موجود ہیں۔ چونکہ ستارے ہم سے بہت دور ہوتے ہیں یعنی نوری سالوں کے فاصلے پر اس لئے ہمیں یہ بے
سائنسی طرزِ فکر اپنائے بغیر سائنس نہیں سیکھی جا سکتی۔ سائنسی طرزِ فکر حقیقت پسندی کا نام ہے۔ ایک ان پڑھ بھی اگر حقیقت پسند ہو تو وہ ایک پی
ہم جسے عام فہم میں آسمان کہتے ہیں دراصل یہ خلا کا وہ حصہ ہے جو زمین سے ہم دیکھتے ہیں۔ زمین بھی کائنات کے باقی تمام ستاروں, کہکشاؤں وغیرہ
گرمیوں کی چھٹیوں میں ہوم ورک ملتا۔ سلیبس کی کتاب سے پیج نمبر 3 سے پیج نمبر 222 تک جو لکھا ہے اُسے نئی کاپی پر نقل کرنا ہے۔ فلاں
آئن سٹائن کی یہ ایکوئیشن دراصل یہ بتاتی ہے کہ مادہ اور توانائی ایک ہی شے کے دو نام ہیں اور مادے میں کتنی توانائی ہوتی یے۔ اکثر لوگ یہ
"ٹچ والا موبائل" ہاتھ میں لیے ایک صاحب فیسبک پر چاند پر انسان کے جانے کو شبہہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گزشتہ رات زمین سے کروڑوں میل دور ایک
آسمانوں میں اُڑنے کی خواہش انسانوں میں ہمیشہ سے رہی۔ انسان جب اپنے ارگرد پرندوں کو اُڑتے دیکھتے تو اُن میں ایک تجسس سا جاگتا کہ اگر وہ ہوا میں
"بھائی باہر کے ملک کا ویزا لگوا دو!!" "صاحب نوکری دلوا دو!!" اس طرح کے کئی جملے میں اور ہم جیسے کئی لوگ جو حالات سے لڑتے اپنی زندگی کے
آنجہانی عمر شریف ایک بار لطیفہ سنا رہے تھے کہ پاکستان میں کہیں گلی میں کتا نظر آ جائے لوگ اُسے پتھر مارنے لگ جاتے ہیں۔ کتا بھی سوچتا ہو









