تاج محل — ریاض علی خٹک

0
54

آگرہ میں تاج محل کے سامنے کسی انجنئیر کو کھڑا کر دیں. وہ آپ کو اس عمارت کی فن تعمیر میں وہ زاوئے نکال کر دکھائے گا جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے. وہ بتائے گا دیکھو یہ اسلامی فن تعمیر کا ٹچ ہے یہ ہند کا تو یہ ثمرقند و بخارا کا زاویہ ہے.

کسی شاعر کو کھڑا کر دیں وہ محبت کی لازوال داستان سنائے گا. کسی تاجر کو کھڑا کر دیں وہ اس کی آج کی قیمت طے کرنے لگے گا. تاریخ دان اس کی تاریخ سنائے گا کسی سیاست کے مارے مذہب پرست کو کھڑا کر دیں وہ بتائے گا یہ ایک مندر کے اوپر کھڑی عمارت ہے اسے گرا دو.

ہمارے پختون دیہاتی معاشرے میں کسی آرکیٹیکٹ کی ضرورت نہیں ہوتی. ایک قطار میں لڑکے گن کر کمرے بنا دیتے ہیں سامنے ایک برآمدہ ہوگا برآمدے میں ہوا یا خوبصورتی کیلئے بارانی جالی لگی ہوگی اور آرکیٹیکچر کے نام پر صرف برآمدے کے ستون رے جاتے ہیں. سیدھے رکھیں یا ترچھا کر کے کونا آگے کر دیں؟ زیادہ انجینئرنگ ہو تو بس ایک کی جگہ دو ستون کردو. جسے بھی سامنے کھڑا کردو وہ کہے گا بس رہنے کیلئے ہی عمارت بنی ہے.

ہماری فیس بُک کی تحریریں گاوں کی یہی سیدھی قطار کی سیدھی آبادی ہوتی ہے. کچھ لوگ پتہ نہیں کیسے خود کو انجینئر یا تحریر کو تاج محل سمجھ کر اس میں سے وہ مفہوم نکالنے لگتے ہیں جو ہم نے بھی سوچے نہیں ہوتے لیکن کمال تو سیاست کے مارے ذہن دکھاتے ہیں وہ اس کی بنیاد پر ہی سوال کھڑا کر دیتے ہیں.

Leave a reply