تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتہ تحریر:شمسہ بتول

0
80

ہم نے بہت بار یہ جملہ سنا کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے ۔ ایک پڑھا لکھا شخص اور ایک ان پڑھ شخص میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اس بات کو مکمل طور پہ آج تک سمجھ نہیں پاۓ۔ ہم نے اس بات کا الٹا مطلب لے لیا کہ جو ان پڑھ ہو گا وہ جاہل ہو گا اور جس کے پاس ڈگری ہو گی وہ عالم ہو گا مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہو ان پڑھ اور جاہل میں بھی فرق ہوتا ہے سب ان پڑھ جاہل نہیں ہوتے اور سب پڑھے لکھے عالم نہیں ہوتے ۔ 

کیا وجہ ہے کہ اتنے ہاٸی سٹینڈرڈ کے سکول اور کالجز اور یونیورسیٹیز میں پڑھنے کہ باوجود بھی ہمارے بچوں اور نوجوان نسل میں اخلاقیات کی کمی ہے کیا ۔ کیا وجہ ہے کہ نوجوان نسل بڑوں کا ادب اور اپنی اقدار اور روایات کو بھلا رہی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اتنی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی وہ دین سے دور ہیں اور اسلامی روایات کو بھلا بیٹھیں ہیں؟ جبکہ ہماے آباٶاجداد نہ تو بڑے اداروں سے پڑھے اور نہ ہی زیادہ تعلیم یافتہ تھے مشکل سے کوٸی میٹرک یا ایف اے پاس ہوتا تھا مگر با ادب اور اعلی اخلاقیات انکا شیوہ تھیں اور اسلامی روایات کو بہت خوبصورتی سے لے کر چلتے رہے کیونکہ اس وقت کا تعلیمی نظام رٹا سسٹم یا GPA کی دوڑ پہ مبنی نہیں تھا بلکہ علم کے حصول پہ مبنی تھا والدین اور اساتذہ مل کر بچوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کرتے تھے ۔ مختصر کہا جاۓ اگر تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہم نے

 ہم نے اعلی تعلیم یافتہ جاہل بھی دیکھے اور کم تعلیم یافتہ عالم بھی دیکھے ”

علم کی تعریف یہ نہیں ہے کہ تمہارے پاس ڈگریاں ہوں بلکہ علم کا مطلب تو یہ ہے کہ تم صحیح اور غلط اور حق و باطل میں اور جاٸز و ناجاٸز میں فرق کر سکو۔

ہمارے نوجوان نسل جو یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہو رہی ہے اگر ہم جاٸزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ان کے پاس اسناد تو ہیں مگر علم کی کمی ہے۔ ان میں اخلاقیات او تہذیب اور ادب و آداب کی کمی ہے کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام اس قدر تباہ ہو چکا ہے کہ ہم نے بچوں کو مارکس اور رٹا سسٹم پہ لگا دیا ہم نے انہیں شعور نہیں دیا ہم نے انکی تربیت نہیں کی اخلاقیات نہیں سکھاٸی ۔

اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل تباہی کی طرف جا رہی ۔ ڈگری تو صرف ایک رسید ہوتی کہ آپ نے تعلیم حاصل کی مگر آپ کے علم و قابلیت کا پتہ تو آپ کی اخلاقیات و اقدار سے پتہ چلتا

جس کا ہمارے ہاں بہت زیادہ فقدان ہے اور اس کا ذمہ دار کہیں نہ کہیں ہمارا تعلیمی نظام بھی ہے

مثال کے طور پہ ہم نے اکثر یہ دیکھا ہو گا کہ کالجز یونیورسیٹیز کے سٹوڈنٹس اپنے ہی کالجز اور یونیورسیٹیز میں کچرا جہاں چاہا پھینک دیا کلاس روم میں کچرا پھیلا دیا کہ صفاٸی تو خاکروب کا کام ہے۔ تو ایسے تعلیم یافتہ او جاہل میں کیا فرق باقی رہ گیاہم تو یہاں پڑھنے آتے یہ کونسی تعلیم دی ہم نے انہیں  جو ان میں اتنا شعور بھی نہ پیدا کر سکی کہ وطنِ عزیز کا ہر ایک کونہ ہمارا گھر ہے اور بحیثیت پاکستانی ہم اس گھر کے فرد ہیں اور ہمیں اسکی تزٸین و آراٸش کا خیال رکھنا ہے تو ایسے تعلیم یافتہ ات جاہل میں کیا فرق باقی رہ گیا۔

مختصر یہ کہ ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگ  کچرا پھینکتے اور پراٸمری یا مڈل پاس وہ کچرا اٹھاتا تو سوال یہ ہے کہ واقع ہی ہم اپنی درسگاہوں میں علم کی روشنی پھیلا رہے شعور اجاگر کر رہے یا صرف ڈگریاں بانٹ رہے؟

ہمارے سیاستدان جو آکسفورڈ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن انکے علم کا پتہ انکی الزام تراشیوں اور اخلاقیات سے چلتا۔ محض چند سیٹوں کے لیے ایک دوسرے کو گالیاں دینا یا کردار کشی کرنا تعلیم یافتہ ہونے کی نشانی نہیں بلکہ جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ تعلیم  حاصل کرنے کے بعد بھی کرپشن رشوت بدعنوانی سفارش اور گالم گلوچ کا کلچر  یہ سب علم کی توہین کے زمرے میں آتا

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو ٹھیک کریں اور والدین اور اساتذہ مل کر ایک تربیت یافتہ نسل تیار کریں ۔ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہی مگر افسوس کہ ہم نے اسے GPA اور گریڈ تک محدود کر دیا اور اس میں اداروں کے ساتھ ساتھ ہمارے اساتذہ اور والدین بھی شامل ہیں ۔ ہر سال ہمارے ہاں اتنی وافر مقدار سے سٹوڈنٹس کالجز اور یونیورسیٹیز میں ٹاپ کر رہے مگر عملی زندگی میں کوٸی بھی اس ملکی ترقی کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا کیونکہ ہم نے انہیں رٹا سسٹم سکھایا انہیں حقیقی معنوں میں تعلیم و شعور  نہیں دیا ۔ یونیورسیٹیز کو GPA کی فیکٹریاں بنانے کی بجاۓ اصل معنوں میں علم و شعور کی درسگاہیں بناٸیں تا کہ مستقبل میں ہماری نوجوان نسل اس قوم کی ترقی کا باعث بنے نہ کہ شرمندگی کا۔

"خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے”

اس لیے رٹا سسٹم کی بجاۓ بچوں کو عملی طور پر تعلیم سے روشناس کراٸیں کیونکہ ڈگری صرف یہ بتاۓ گی کہ آپ نے یہ پڑھا ہے مگر آپکا عمل اور کردار اور آپکی اخلاقیات بتاٸیں گی کہ آپ واقع ہی اہل علم ہیں۔

@sbwords7

Leave a reply