تعلیمی سلسلہ اور کورونا کا وار  تحریر:- محمد عبداللہ گِل 

0
49

کورونا وائرس کے آنے کے بعد دنیا بھر میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگوں کو نقصان ہوا۔تجارتی مراکز بھی بند رہے،فیکٹریاں،ملز،سرکاری دفاتر الغرض ہر شے کو منجمند کر دیا گیا۔لیکن اگر کسی تاجر کا نقصان ہوا تو وہ وقتی تھا بعد میں وہ منافع کما لے گا،اگر کسی نجی کمپنی یا ادارے میں کام کرنے والے پر کورونا کی وجہ سے مشکل وقت آیا تو وہ بھی گزر گیا اب تو اس پر خوشحالی آ جائے گی اس کا وقت گزر گیا لیکن ان سب سے ماورا ایک ایسا شعبہ ھے جس کو تعلیمی میدان کہا جاتا ھے اس سے وابستہ طلباء کا جو نقصان ہوا اس کی بھرپائی ممکن ہی نہیں ھے۔ملک پاکستان میں جب ہی کورونا کے تناسب میں اضافہ ہوا تو تعلیمی اداروں کو سب سے پہلے بند کیا گیا یقینا میں حسن ظن کو گردانتے ہوئے یہ ہی مان لیتا ہوں طلباء کہ صحت کی وجہ سے اقدام کو اٹھایا گیا۔

قارئین کرام! آپ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کی پالیسی بنانے کا انداز دیکھے گے وہ پاکستان سے مخلتف ہو گا۔جس ملک میں بھی پالیسی کو بنایا جاتا ھے تو اس سے متعلقہ افراد کو اعتماد میں لیا جاتا ھے۔مغربی ممالک میں وہ سروے کرواتے ہیں اور عوامی رائے کو۔مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی کو بناتے ہیں کیونکہ جو پارلیمنٹ کا ممبر ہے وہ عوامی ووٹ بنک کی وجہ سے اسمبلی میں پہنچا ھے  اس کے لیے لازم ھے کہ وہ عوامی رائے کا خیال رکھے۔

لیکن ملک پاکستان میں طلباء کے حوالے سے جب بھی پالیسی کو بنایا گیا کسی بھی طالب علم سے اس کی رائے نہیں لی گئی کہ طلباء کیا چاہتے ہیں۔جب حالات غیر یقینی ہو تو حکومت کا کام ہوتا ھے کہ وہ عوام کو اعتماد میں لے۔لیکن افسوس صد افسوس لاکھوں روپے لینے والے بیوروکریٹ،تعلیمی دانشور،وزرائے تعلیم عوامی پیسہ سمندر کے پانی کی طرح بہا کر میٹنگز کر کے اب تک ایک ایسی پالیسی نہیں بنا سکے جس سے طلباء راضی ہو۔جب انٹر اور میٹرک کے طلباء کے امتحانات کا معاملہ تھا اس طرح صورتحال غیر یقینی بنا دی گئی کہ طلباء کو اس پر  بھی شک تھا کہ کل پرچہ ہو گا یا نہیں۔پھر جب طلباء احتجاج کے لیے نکلے تو ان کے قائدین کی گرفتاری کی گئی۔اور کہا گیا کہ ہم نے وقت دیا ھے سلیبس بھی شارٹ ہے۔تمام طلباء نے امتحان دیا اب اگر ملک کا لٹریسی ریٹ کم ہوتا ھے تو اس کی ذمہ داری وزرائے تعلیم کو لینی چاہیے کیونکہ پاکستان میں آدھے سے زیادہ آبادی کے پاس تو انٹرنیٹ کنیکشن ہی نہیں ھے اور ملک کے کسی بھی حصے میں سگنل مکمل نہیں ہوتے۔اور آن لائن کلاسز کا تو سب کو ہی پتہ ھے کہ کیا تماشہ بنایا گیا تعلیم کا۔میرا ایک دوست مجھے یہ واقعہ بتا رہا تھا کہ اس کے والد کو زوم ایپ چلانا ہی نہیں آتا تھا۔وہ وقت طلباء نے جیسے تیسے نکال لیا لیکن اب جب میڈیکل کے طلباء انٹری ٹیسٹ جس کو ایم ڈی کیٹ بھی کہا جاتا ھے اس کی تیاری کے لیے آئے تو PMC کے سلیبس میں وہ سارے ٹاپک شامل ہیں جو کہ وزارت تعلیم نے مختصر سلیبس میں سے نکالے تھے۔ظاہری سی بات ھے اساتذہ نے اس کی تیاری بھی نہیں کروائی ہو گی اب وزارت تعلیم کی نااہلی یہ ہے کہ ٹیسٹ اسی تاریخ سے ہی ہورہے ہیں لیکن اکیڈمیز کو بند کر دیا گیا ھے اب جن طلباء نے جو ایک ٹاپک پڑھا ہی نہیں اب بھی وہ نہیں پڑھ رہے تو اس کا PMC ٹیسٹ کس بنیاد پر لے رہی ھے۔یہ سراسر طلباء کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہیں والدین نے تو اکیڈمیز کی ہزاروں میں فیسیں بھی بھر دی ھے جب طلباء فیل ہو گے تو اس کا ذمہ دار بھی وزیر تعلیم ہو گا۔اب تک جو رزلٹ آیا ھے انٹری ٹیسٹ کا اس کے مطابق آدھے سے زیادہ بچے فیل ہوئے اس کی وجہ ایک ہی ھے کہ آن لائن کلاسز میں رٹہ تو لگ سکتا ہے لیکن استاد بچے کو Conceptual

سٹڈی نہیں کروا سکتا جبکہ انٹری ٹیسٹ میں تو رٹہ سسٹم کامیاب ہی نہیں  ہوتا جس کی وجہ سے وہ فیل ہو گے ہیں اور اس کہ ذمہ دار حکومت وقت ھے چنانچہ سب سے پہلے خ

وزیراعظم پاکستان کو وزرائے تعلیم کو ہدایت کرنی چاہیے کہ طلباء کو اعتماد میں لے پھر ان کے حوالے سے پالیسی بنائے تاکہ طلباء کو اس کا فائدہ پہنچے 

واسلام 

@ABGILL_1

Leave a reply