@drislamilyas

 

تقدیر کیا ہے ۔ جب انسان کو سید ھے اور غلط راستے پر چلنے کا اختیار دیا گیا ہے اوراس کے لیے

جزا اور سزا کا نظام بنایا گیا ہے تو پھر یہ کیوں کہا جا تا ہے کہ انسان جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو لکھ دیا

جا تا ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی ہے اسی سوال سے اکثر لوگوں کے ذہن میں گردش کر تا ہے ۔اگر پیدائش سے پہلے

ہی لکھا ہوا ہے تو انقیار کیسا اور حساب کتاب کیا۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ اگر ہر چیز لوح محفوظ میں

درج ہے تو یہ کیوں کہا جا تا ہے کہ شب قدر یا شب برأت والے دن فرشتوں کو اگلے سال کا شیڈول دیا جا تا

ہے کہ اس سال یہ پیدا ہوگا ، ی مرے گا، یہ نیکی کے کام کرے گا، یہ برائی کے کام کرے گا، رزق کی تقسیم

وغیرہ وغیرہ۔

در اصل انسان کو اختیار دیا گیا ہے ۔ اور وہ آزاد ہے کہ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کرے یا

نافرمانی کر کے سزا کا مستحق بنے ۔لیکن اللہ جونقل کل ہے یہ اس کا علم ہے کہ وہ یہ جانتا ہے کہ انسان اپنے

اختیار کو کیسے استعمال کرے گا۔ وہ یہ جانتا ہے کہ کون کس وقت کیا کام کرے گا۔ قیامت تک کے تمام

حالات واقعات لوح محفوظ میں درج ہیں لیکن لوح محفوظ تک فرشتوں کی بھی رسائی نہیں ہے ۔ شب قد رکو

آئندہ سال کا شیڈ ول فرشتوں کے حوالے کیا جا تا ہے ۔ اور انسان پورا سال اپنے اختیار سے اپنی زندگی

گزارتا ہے ۔اورمنکر نکیرلحہ بلح تحریر کرتے ہیں اور وہ وہی اعمال ہوتے ہیں جو انہیں سال پہلے لکھ دیئے گئے

تھے کہ کون ساشخص کب اور کیاعمل کرے گا۔ یہ اللہ کاعلم ہے جس تک مخلوق کی رسائی نہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان ہاتھ کی لکیروں ستاروں سے مستقبل کیسے جان لیتا ہے ۔ کیا

اس میں بھی کوئی حقیقت ہے۔ جی ہاں یہ بیچ ہے اور یہ نظام بھی اللہ کا بنایا ہوا ہے ۔ اور اللہ نے انسان کو علم بھی

دیا ہے لیکن اس میں کب تبد یلی کردی جائے گی اس کا اختیاراللہ کو ہے اور اےسی تبدیلیاں لوح محفوظ میں درج

ہیں جس کا علم تلوق کونہیں دیا گیا۔ سورۃ لقمان آیت نمبر ۳۴ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ” بیک اللہ کے پاس

ہے قیامت کاعلم اور اتارتا ہے مینھ اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے اورکوئی جان نہیں جانتی کہ کل

کیا کماۓ گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی ، بے شک اللہ جانے والا بتانے والا ہے ۔

اب اکثر لوگ کہتے ہیں کہ بھئی پیدائش سے پہلے پتا چل جا تا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے ۔ در اصل اسکا

معانی جنس نہیں اس کا مطلب ہے کہ جو ماں کے پیٹ میں ہے اچھا ہے یا برا ہے معاشرے میں کیسا رہے گا

نقصان والا یا فائدہ دینے والا ۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے قسمت کا حال جانے سے منع فرمایا ہے اس

لیے ہمیں مستقبل کے بارے میں جاننے کی کوئی ضرورت نہیں اور ہر وہ کام جس کے کرنے سے ہمارے نبی

ﷺ نے منع فرمایا ہے اس کو کرنا گناہ ہے ۔ایک اور بات تقذ یرکو نہ ماننے والوں کے لیے ” قیامت کی

نشانیان بیان کی گئی ہیں اگر انسان کے اعمال سے اللہ پہلے سے باخبرنہیں تو نشانیوں کا جواز ہی پیدانہیں

ہوتا”۔ غزوہ احد میں ایک دن پہلے رسول ﷺ نے بتادیا تھا کہ فلان اس جگہ مارا جاۓ گا اور فلان اس جگہ

اور وہی ہوا۔اگر تقدیر میں سب لکھا نہیں ہے تو یہ کسے ہوا مثالیں بے شمار ہیں مگر سمجھدار کے لیے یہ کافی ہیں

اور نہ مانے والوں کو تو کوئی منانہیں سکتا 

ڈاکٹر اسلام الیاس

Shares: