انسانیت اور مسلمانیت  تحریر : امین 

0
47

خط جو میں نے لکھا انسانیت کے نام پر ڈاکیاں ہی مر گیا پتہ پوچھتے پوچھتے ۔

ہروز سوشل میڈیا،پرنٹ میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا میں انسانیت سوزی کے ایسے ایسے واقعات اور شہ سرخیاں نظروں سے گزرتی ہیں کہ انسانیت شرمسار نظر آتی ہے ۔ 

زاتی اناؤں،جھوٹی شخصیت کے تکبر میں گم ہم اپنے اصل اپنی پیدائش کے مقصد کو مکمل بھول چکے ہیں 

کہ 

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو 

انسان انس سے ہے اور انس محبت ہے جس میں محبت ہی نہیں وہ انسان ہی نہیں 

انگریزی کہاوت ہے کہ 

                                             Do good Have good 

اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ کسی کے ساتھ نیک عمل کریں تو وہ ہی  شخص ہی آپ کے ساتھ بھلائ کرے  نہیں ایسا نہیں ہے جس طرح آپ نے انسانیت کے ناطے کسی کی مدد کی بلکل اسی طرح کہیں کسی موڑ پہ کوئ اجنبی آپ کے معاملے بھی ایسے ہی انسانیت دکھائے گا اور  اسکا مطلب یہ بھی  ہے کہ اگر ہم کسی کے ساتھ بھلائ کریں گے تو اللہ تعالی ہمارے ساتھ بھلائ کا معاملہ فرمائیں گے  

ہم پہلے انسان ہے اور پھر مسلمان  اگر ایک شخص صرف مسلمان ہے اور اس میں انسانیت نہیں  تو یہ اسکے لۓ کافی نہیں وہ کامیاب نہیں ہے در حقیقت وہ مسلمان ہی نہیں ۔اسلام کو تمام مزاہب میں سے بہترین مزہب کا درجہ انسانیت کی بنیاد پہ ہی دیا گیا ہے 

مذہب میں سے انسانیت اور خدمت نکال دی جاۓ تو صرف عبادت رہ جاتی ہے اور محض عبادت کیلۓ پروردگار کے پاس فرشتوں کی کوئ کمی نہیں تھی   

میرے پیاروں اگر ایک انسان پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہے روزے رکھتا ہے حج ادا کرتا ہے اپنے چہرے پر داڑھی سجاتا ہے سفید کپڑے پہنتا ہے تہجد پڑھتا ہے دیگر نوافل ادا کرتا ہے حقوق اللہ تو پورا کرتا ہے لیکن 

وہ انسان حقوق العباد میں کوتاہی کرتا ہے اس میں انسانیت نہیں ہے وہ حرام کھاتا ہے لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہے لوگوں کو تنگ کرتا ہے تو یقیناً یہ انسان خسارے میں ہے اسکی آخروی کامیابی ناکامی ہے 

 کیونکہ انسان تو ہر گھر میں پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانیت کہی کہی پیدا ہوتی ہے  میرا مذہب انسانیت پسندی ہے جو کہ دنیا کے ہر مذہب کی بنیاد ہے۔

دوسرے طرف ایک انسان جس میں انس ہے محبت ہے شفقت ہے ہم دردی ہے اخلاق ہے حرام نہیں کھاتا حقوق العباد تو پورا کرتا ہے لیکن یہ انسان محض انسانیت کی حد تک ہے روزے نہیں رکھتا نماز نہیں پڑھتا حلال کام نہیں کرتا حقوق اللہ پورا نہیں کرتا تو یہ انسان بھی خسارے میں ہے اسکی کامیابی ناممکن ہے

 طرف لاکھوں انسان بھی دیکھے اور لاکھوں مسلمان  بھی دیکھے لیکن ایسا بہت کم دیکھا جو انسان بھی ہو اور مسلمان بھی ہو ۔

آج انسان چاند پر پہنچ گیا ،سمندر کی تہوں تک رسائ حاصل کر لی ،صدیوں کے سفر کو لمحوں میں سمیٹ لیا ،لیکن افسوس انسانیت تک نہ پہنچ پایا ۔وہ اونچائ یا  بلندی کس کام کی جس پر سوار ہو  کر انسان انسانیت کے میعار سے ہی گر جائے

اے بادل اتنا برس کے نفرت ڈھل جائیں 

 انسانیت ترس گئ ہے محبت کے سیلاب کو  

قربان جاؤں اس عظیم شخص اور عظیم انسان سے جسکی انسانیت اور مسلمانیت دیکھ کر غیر مذہب ایمان لے آتے  

آپ میرے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ تو پڑھے آپکو ایک ہی شخصیت میں انسان بھی نظر آئیگا اور مسلمان بھی ۔اور کتنے بد نصیب ہیں ہم کہ ہم اس نبی کے امتی ہیں لیکن انسانیت کے الف سے بھی واقفیت نہیں رکھتے 

یہاں  اگر مسلمان ہے تو انسان نہیں اور گر  انسان ہے۔جب کہ اسلام بار بار کہتا ہے کہ دین و دنیا کی کامیابی تبھی ممکن ہے جب حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی پورے کیے جائے یعنی ثابت ہوا کہ مزہب اور انسانیت لازم و ملزم ہیں ،

 آج ہمارہ مقصد صرف دوسروں پہ طنز و تنقید کرنا رہ گیا ہے ،دوسروں کے رویوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہم اپنے گریبان میں جھانکنا بھول جاتے ہیں ۔ خدارا دوسروں پہ فتوے لگانے کی بجائے اپنے اعمال کو سدھاریے ،صحیح اور غلط کا فیصلہ رب تعالی پر  چھوڑ دیں 

آپ انسان ہیں انسانیت پر زور دیں۔ 

 کسی کو دنیا اور آخرت میں خوشحالی، کا میابی و کامرانی چاہئے تو مزہب اور انسانیت  دونوں چیزیں خود میں پیدا کرے اچھے مسلمان ہونے کے ساتھ اچھا انسان بھی بنے

 موجودہ دور کا سنگین المیہ ہے کہ سمجھانے والے نے سمجھا کر چھوڑا سمجھنے والے نے سمجھ کر چھوڑا 

سنانے والے نے سنا کر چھوڑا سننے والے نے سن کر چھوڑا

 پڑھانے والے نے پڑھا کر چھوڑا پڑھنے والے نے پڑھ کر چھوڑا

لکھنے والے نے لکھ کر چھوڑا ،عمل کرنے کے مقام تک کوئ نہیں آتا ۔بحیثیت مسلمان ،بحیثیت انسان ہمیں اس بات کو  سمجھنا ہے کہ کامیاب انسان بننے کیلیے 

گفتار کے دور میں کردار کی ضرورت ہے ۔

محض دلچسپی کے لۓ نہ پڑھے عمل کی کوشش ضرور کیجۓ گا۔

Twitter Handle : @ameyynn

Leave a reply