کیا ٹیم پاکستان ایک اور سرپرائز دے پائے گی ؟؟؟ اسد عباس خان

انگلستان کا موسم اور پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بارے پیش گوئی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ یہ کب °360 ڈگری کی پِھرکی لے نہ تو اعداد وشمار اور تیکنیک کی باریکیوں میں پھنسے تجزیہ نگار بتا سکتے ہیں نہ جدید ٹیکنالوجی "Unpredictable team” کی اس گتھی کو سلجھا سکتی ہے۔ ہونی کو انہونی اور ناممکن کو ممکن بنانا کوئی ان سے سیکھے، غیر متوقع نتائج دینے میں ٹیم پاکستان بین الاقوامی کرکٹنگ سرکل میں ہمشیہ بریکنگ نیوز کی صورت مرکز نگاہ رہتی ہے۔
ورلڈ کپ سے قبل پہلے آسٹریلیا اور پھر انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ بین الاقوامی میچز کی لگا تار دو سیریز وائٹ واش ہو گئے۔ ورلڈ کپ وارم اپ میچ میں افغانستان کی بے نام (بے بی) ٹیم سے ہار گئے۔ اس مایوس کن کارکردگی پر شائقین کرکٹ پریشان تو تھے ہی، رہی سہی کسر ویسٹ انڈیز کے خلاف نکل گئی جب گرین شرٹس صرف 105 رنز پر ڈھیر ہو کر باآسانی سات وکٹوں سے شکست کھا گئے تو ورلڈ کپ میں کچھ اچھا کرنے کی سب امیدیں ٹوٹ گئیں۔ لیکن دنیا اس وقت حیرت زدہ رہ گئی جب ٹیم پاکستان نے 3 جون کو نوٹنگھم کے کرکٹ گراؤنڈ پر اس ورلڈ کپ کی "موسٹ فیورٹ” اور ورلڈ نمبر ون انگلینڈ کو گھر میں گھس کر مار دیا تو امیدوں کے چراغ ایک بار پھر روشن ہو گئے۔ 7 جون کو سری لنکا بمقابلہ پاکستان برسٹل کے کرکٹ گراؤنڈ میں جیت بارش کے نام درج ہوئی اور 16 جون کو ورلڈ کپ کے سب سے بڑے مقابلے میں ہندوستان سے بری ہار پر ہر کوئی اس ٹیم کو کوسنے لگا اور معاملات کھیل سے نکل کر کھلاڑیوں کی ذاتیات اور ان کے اہل خانہ پر گالم گلوچ تک پہنچ گئے۔ غصیلے شائقین کرکٹ کا کپتان سرفراز احمد اور چیف سلیکٹرز سابقہ لیجنڈ انضمام الحق خاص طور پر نشانہ بنے۔ اور جب اگلا میچ آسٹریلیا سے بھی ہارا تو شائقین کرکٹ کا غم و غصہ بجا تھا لیکن۔۔!
سوشل میڈیا سے ریگولر میڈیا تک عوام، ریٹائرڈ سابقہ پلیئرز، تجزیہ نگار، سیاست دان غرض ہر کوئی اپنے دل کی بھڑاس نہایت منفی انداز میں نکالنے لگے جو من حیث القوم ہمارے لیے واقعی قابل تشویش بات ہے۔ پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان سے نیچے صرف افغانستان کی ٹیم تھی اور ٹیم پاکستان کا ورلڈ کپ میں سفر تمام ہونے کے تبصرے شروع ہو چکے تھے۔ جبکہ کچھ سر پِھرے اب بھی 92 کے ورلڈ کپ کے ساتھ مماثلت ڈھونڈ ڈھونڈ کر اعلان کناں تھے۔ ٹویٹر پر کسی دیش بھگت نے لکھا کہ میری والدہ بتاتی ہیں جب 92 میں پاکستان اپنا پانچواں میچ ہارا تھا تو اس دن ہم نے ٹینڈے پکائے ہوئے تھے اور آج 2019 میں بھی پانچویں میچ کی ہار اور ٹینڈے ہی پکے ہیں۔
اور پھر ابھی تک ہوا بھی کچھ یوں ہی ہے۔ شاہینوں نے اونچی پرواز لی اور 23 جون کو لندن کے تاریخی لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر ساوتھ افریقہ کی ٹیم کو پھینٹا لگانے کے بعد 26 جون کو اب تک ورلڈ کپ میں ناقابل شکست نیوزی لینڈ کو بھی رگید ڈالا تو ایک بار پھر دنیا ورطہ حیرت تھی۔ لیکن ابھی عشق کے دو امتحان اور بھی ہیں افغانستان اور بنگلادیش کے خلاف باقی بچے دو میچز میں کامیابی حاصل کر کے ہی ٹیم پاکستان سیمی فائنل میں جگہ بنا سکتی ہے۔ جہاں بالخصوص بنگلادیش کے خلاف پوری طاقت لگانی ہو گی وہ ٹیم 2015ء ورلڈ کپ کے بعد سے شاندار کرکٹ کھیل رہی ہے۔ اور ٹیم پاکستان کو گزشتہ چار میچز میں لگا تار شکست کا مزہ بھی چکھا چکی ہے جہاں سال 2015ء میں اظہر علی کی کپتانی میں دورہ بنگلادیش پر تین ایک روزہ مقابلوں کی سیریز میں وائٹ واش کی خفت کا سامنا کرنا پڑا اور گزشتہ برس متحدہ عرب امارات میں ہونے والے ایشیاء کپ مقابلوں میں سرفراز احمد کی کپتانی میں شکست بھی شامل ہے۔ اس ورلڈ کپ میں بھی پوائنٹس ٹیبل پر ٹیم پاکستان کے برابر جبکہ نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر وہ ہم سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ لیکن یہاں بھی اگر مگر کی صورتحال کا خطرہ بہرحال موجود ہے۔ انگلینڈ کو اپنے آئندہ دو میچز (بمقابلہ ہندوستان و بمقابلہ نیوزی لینڈ) میں سے کم از کم ایک میچ ہارنا بھی ہو گا۔ جو کہ پاکستان سے پِٹنے کے بعد سری لنکا اور آسٹریلیا سے بھی شکست کھا کر شدید مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔
کون کہاں کھڑا ہو گا یہ تو اگلے ہفتے ہی پتہ چلے گا البتہ دنیا اس بات کی قائل ہے کہ پاکستان کو جب بھی "Underestimate” کیا گیا تو ہمیشہ ٹیم پاکستان نے "Strike” کرتے ہوئے مخالف کو "Surprise” دیا ہے اور یہ رِیت کھیل کے علاوہ باقی شعبہ ہائے زندگی میں بھی شامل ہے۔
1992ء کا ورلڈ کپ ہو یا 2017ء کی چیمپیئن ٹرافی ٹیم پاکستان ہمیشہ ایسے سرپرائز دینے کے لیے مشہور ہے۔ کیا اس بار بھی ایسا ہونے والا ہے۔۔۔۔ یا سرفراز دھوکہ دے گا۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟ چند روز تک سب سامنے آ جائے گا لیکن ایک بات تو طے ہے "تم جیتو یا ہارو سنو ہمیں تم سے پیار ہے” کے نغمے گاتے شائقین کرکٹ کو اس ٹیم سے بے لوث محبت ہے۔

Leave a reply