تحریک پاکستان کی ایک گمنام ہیروئن . تحریر: محمد محسن

0
82

"فاطمہ بنت محبوب عالم”
دنیا کے تقریباً ہر براعظم میں چاہے افریقہ ہو، شمالی امریکہ ہو، جنوبی امریکہ، ایورپ ہو یا پھر ایشیاء آزادی کی تحریکیں چلیں۔ ہر جگہ پسے ہوئے اور بے بس لوگوں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی قیمتی جائیدادوں اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بعض جگہ یہ تحریکیں کامیاب ہوئیں اور بعض جگہ ناکام جس کی وجہ سے ان آزادی کی تحریکوں میں عارضی بندش تو ہوئی لیکن کوئی بھی ظلم و جبر کا نظام ان کو مستقل طور پر روک نہ پایا۔ ابھی بھی دور حاضر میں آپ مشاہدہ کریں تو ایسی تحریکیں ہنوز جاری و ساری ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جہاں یہ تحریکیں کامیاب ہوئیں وہاں کتنے ایسے گمنام ہیرو ہیں جنکو بھلا دیا گیا یہاں تک کہ عام لوگوں کو ان کا نام تک معلوم نہیں۔ صرف چند اک نام ہوتے ہیں جو زبان زدِ عام ہوتے ہیں باقی سب تاریخ کے پنوں میں پڑے رہتے ہیں یہاں تک کہ اک دن وہ پنہ تاریخ سے بھی کٹ جاتا ہے۔ برصغیر میں بھی آزادی کی اک ایسی ہی تحریک چلی جس نے برطانوی سرکار کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور دھیرے دھیرے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئی اور اک الگ وطن پاکستان حاصل کیا۔ پاکستان بننے کے بعد آج ہم چند اک نامور شخصیات کے علاؤہ وہ کتنے ہی گمنام ہیرو ہیں جو کہ تحریک آزادی میں پیش پیش تھے کو بھلا چکے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ریاستی بنیاد پر بھی ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کوئی سعی نہیں کی گئی۔ انہی گمنام ہیروز میں ایک فاطمہ بنت محبوب عالم تھیں جو 1890 میں لاہور میں مولوی محبوب عالم کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ مولوی محبوب عالم مزہبی لگاؤ رکھنے کے باوجود اک معتدل شخصیت کے مالک تھے جو کہ بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے تھے۔ فاطمہ بنت محبوب عالم نے اپنی بنیادی تعلیم گھر سے ہی حاصل کی اور 1901 میں پرائیویٹ میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بعد میں تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ سکول میں تدریسی خدمات بھی انجام دیتی رہی اور فورٹ نائٹلی میگزینز میں لکھتی بھی رہیں تاکہ مسلمان خواتین میں شعور اجاگر ہو۔ فاطمہ بیگم کو برطانوی انڈیا میں پہلی مسلمان صحافی کے طور بھی جانا جاتا ہے جس نے پہلے پہل تو ایک خواتین کے میگزین "شریف بی بی” میں بطور ایڈیٹر اپنی خدمات سرانجام دیں لیکن بعد میں "خاتون” کے نام سے ایک اپنا میگزین شروع کیا تاکہ وہ خاص طور پر مسلمان خواتین کی تربیت کے لیے کچھ بہتر کر سکے اور ان میں ایک سیاسی تحریک پیدا کر سکے۔ اس نے لکھنے کا کام 1909 سے ہی شروع کر دیا تھا جب وہ "عصمت” نامی رسالہ/اخبار میں مضمون لکھتی تھی۔ فاطمہ نے "حج بیت اللہ و زیارت دیار حبیب” کے نام سے ایک سفرنامہ بھی تحریر کیا۔ جیسے جیسے اس کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے ہی وہ مختلف سیاسی فورمز کے ساتھ جڑتی گئی یہاں تک کہ وہ لاہور کی دو تنظیموں "انجمن خاتون اسلام” اور ” انجمن حامی بیگمات اُردو” میں ایک میں بطور جوائنٹ سیکرٹری اور دوسری میں سیکریٹری منتخب ہوئیں اور ماہوار میٹنگز میں بھرپور شرکت کی۔ اسکی بدولت انہوں نے خواتین میں ایک نئی تعلیمی، سیاسی اور شعوری تحریک پیدا کی۔ اس کے ساتھ ساتھ فاطمہ نے مسلمان خواتین کی ویلفئیر کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا یہاں تک کہ ان کاموں میں اپنے زیورات بھی پیش کیے۔ فاطمہ بنت محبوب عالم سر سید احمد خان کی طرح انگریزی تعلیم کی حامی تھیں۔ ان کے خیال میں اگر مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کا مقابلہ کرنا ہے تو مرد و خواتین کو جدید تعلیم حاصل کرنا ہوگی جس کے لیے انگریزی تعلیم ضروری ہے۔ یہی جدید تعلیم منجھی ہوئی باشعور مسلمان مائیں پیدا کریں گی جو کہ اپنی اولاد کی بہتر تربیت کریں گی۔ اپنے شوہر کی وفات کے بعد وہ کچھ عرصہ ممبئی میں ٹھریں جہاں انکی قائد اعظم سے ملاقات ہوئی جس میں فاطمہ بیگم کو نئی زمہ داریاں سونپی گئیں۔ 1938 میں انہوں نے لاہور میں نواں کوٹ کے علاقے میں اپنی جگہ پر "جناح اسلامیہ گرلز کالج” قائم کیا جسکا افتتاح جناح صاحب نے بذات خود اپنے ہاتھوں سے کیا جہاں لڑکیوں کی جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ پردہ کو بھی خاص اہمیت دی گئی۔ فاطمہ بنت محبوب عالم نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے بالعموم اور مسلمان خواتین کے لیے بالخصوص بہت خدمات سرانجام دیں۔ آئیے اک نظر انکی کاوشوں پر۔

کیونکہ وہ بذات خود پنجاب (لاہور) سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے ان کی سب سے زیادہ خدمات پنجاب بیسڈ ہیں۔ جناح اسلامیہ گرلز کالج کے ذریعے انہیں ایسا پلیٹ فارم میسر آیا جہاں انہوں نے لڑکیوں میں سیاسی و سماجی شعور کے ساتھ ساتھ تقریری جزبہ بھی پیدا کیا۔ اس کالج سے پڑھی لڑکیوں نے بعد میں بڑے بڑے فورمز پر ہوسٹنگ اور کمپیرنگ کے فرائض سر انجام دئیے۔ اسی اسلامیہ گرلز کالج کو تب گیسٹ ہاؤس بنا دیا گیا جب لاہور قرارداد منظور ہوئی اور دور دراز کے شہروں سے سیاسی ورکرز لاہور تشریف لائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامیہ گرلز کالج کی طالبات اور فاطمہ بیگم بذات خود نے بھی ان انتظامات کے لیے خاصی تگ و دو کی۔ انہی خدمات کی بدولت 1943 میں فاطمہ بیگم کو مسلم لیگ کی "وومین سنٹرل سب کمیٹی” کا ممبر بنا دیا گیا۔ جس میں فاطمہ بیگم نے اپنی زمہ داری کو بخوبی سر انجام دیتے ہوئے تحریک پاکستان میں اہم رول ادا کیا اور مسلمانوں میں ایک الگ ملک حاصل کرنے کا جزبہ پیدا کیا۔ قراداد لاہور کے بعد پاکستان بننے تک اور بہت سے اہم واقعات میں سے دو اہم واقعات 1946 کے عام انتخابات اور 1947 کی سول نافرمانی کی تحریک تھی۔ فاطمہ بیگم نے پنجاب میں رہتے ہوئے ان دونوں واقعات کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ کی خوب مدد کی۔ 1946 کے عام انتخابات کے لیے مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کے حکم پر وہ پنجاب کے مختلف شہری اور دیہاتی علاقوں جہلم، گجرات، وزیر آباد اور گجرانوالہ میں گئیں اور مسلمانوں کو پاکستان اور مسلم لیگ کی اہمیت سے آگاہ کیا جس کی بدولت مسلمانوں نے دل کھول کر مسلم کی حمایت کی اور مسلم لیگ کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ دوسری جانب جب جنوری 1947 میں پنجاب میں سول نافرمانی کی تحریک چلی تو بھی فاطمہ بیگم نے اپنی سٹوڈنٹس اور دوسرے سیاسی ورکرز کے ساتھ کلیدی رول ادا کیا۔ 27 جنوری 1947 کو سول نافرمانی کی خاطر خضر حیات کی حکومت کے خلاف لاہور میں دو بڑے جلوس نکالے گئے جن میں ایک کی قیادت فاطمہ بنت محبوب عالم کر رہی تھیں۔ اس وقت کی حکومت نے اس سول نافرمانی کی تحریک کو کچلنے کے لیے اپنا ہر حربہ استعمال کیا۔ عورتوں پر ٹیر گیس اور لاٹھی چارج کے وار کیے گئے جس کی وجہ سے اکثر خواتین بے ہوش اور زخمی ہوئیں۔ پنجاب کے علاؤہ فاطمہ بیگم نے NWFP موجودہ خیبرپختونخواہ میں بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔ اس صوبہ میں چونکہ خدائی خدمت گار اور کانگریس کا کرادر بھی کلیدی تھا تو یہاں ان کو سیشل مشن دے کر بھیجا گیا۔ NWFP میں ویسے تو 1939 سے "فرنٹیئر وومین مسلم لیگ” کا فورم موجود تھا لیکن دوسری سیاسی جماعتوں کی وجہ سے یہ فورم معدوم ہو کر رہ گیا تھا۔ لہذا فاطمہ بیگم نے 1945 میں اس صوبہ کا رخ کیا اور اور "فرنٹیئر وومین مسلم لیگ” کی تنظیم نو کی جس میں ان کی مدد ان پٹھان لڑکیوں نے بھی جو ان کے لاہور والے اسلامیہ گرلز کالج سے فارغ التحصیل تھیں۔ اپنے تقریباً پندرہ روزہ قیام کے دوران فاطمہ بیگم نے NWFP کے تقریباً سارے اہم علاقوں کو وزٹ کیا اور جلوسوں اور میٹنگز میں مسلم لیگ اور پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ دوسرے اور لوگوں کے ساتھ ساتھ NWFP میں مسلم لیگ کو ریفرینڈم میں جتوانے میں ایک اہم کردار فاطمہ بیگم کا بھی تھا جس نے بیگم شاہنواز اور بیگم تصدق کی مدد سے پٹھان مسلمانوں میں آزادی کی تحریک پیدا کی۔

پنجاب اور NWFP کے علاؤہ جس علاقے میں فاطمہ بیگم نے اپنی خدمات سرانجام دیں وہ تھا بیہار۔ ہوا کچھ یوں کہ اکتوبر 1946 میں جب تحریک پاکستان اپنے فل جوبن پر تھی بیہار میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جس میں مسلم خاندانوں کو خوب تشدد اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے اہم بات یہ کہ ان مسلمانوں کے تشدد کے بارے میں نومبر تک کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہونے دی گئی۔ جب فسادات رکنے کا نام نہ لے رہے تھے تو گاندھی نے احتجاج میں بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ ان فسادات کے دوران فاطمہ بیگم نے اپنی امداد کے ساتھ پنجاب سے بیہار کا رخ کیا۔ انہوں نے بیہار میں ہندو تشدد کے ستائے ہوئے تقریباً 400 مسلمانوں کو یہاں سے پنجاب منتقل کیا اور یہاں پنجاب میں ان لوگوں کے لیے انکی رہائش اور خوراک کا مناسب انتظام کیا۔ ان بیہاری لوگوں کو پنجاب میں مستقل رہائش دینے کے لیے اپنی زمین پر اک کالونی بنا کر دی تاکہ یہ لوگ یہاں پر اپنی زندگی سکھ کے ساتھ گزار سکیں۔ بعد میں قیام پاکستان کے دوران جب قتل و غارتگری شروع ہوئی تو فاطمہ بیگم ان حالات کے مارے مہاجرین کی خدمت کے لیے پیش پیش تھیں۔ یہ حالات کی ستائی ہوئیں اور اپنے خاندان سے بچھڑی خواتین کو اپنے دفتر لاتی، انکی رہائش اور کھانے کا مناسب بندوبست کرتی اور جیسے ہی ان کے رشتے دار ملتے یہ ان کو ان کے حوالے کرتی۔ اس دوران فاطمہ بیگم نے انسانی روپ چھپے ہوئے ان منحوس درندوں کو بھی دیکھا جنہوں نے قتل و غارت کے ساتھ ساتھ عصمت دری کا بازار بھی گرم رکھا۔ کئی ایسی خواتین تھیں جو جسمانی اور جزباتی کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد کا بھی شکار ہوئیں اور انکی وجہ سے نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوئیں۔ فاطمہ بیگم نے ان کے ساتھ خصوصی وقت گزارا، ان کے ساتھ کھانا کھایا باتیں کیں تاکہ وہ اس نفسیاتی ٹراما سے نکل کر نارمل ہو سکیں اور انکی ہر طرح سے مناسب مدد کی۔ فاطمہ بنت محبوب عالم کی ان ساری کاوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ بھی ہمارے تحریک پاکستان کے دوسرے بڑے ہیروز کی طرح ایک ہیروئن تھیں جن کے بارے میں موجودہ نسل کو ضرور بتایا جانا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں ایسا کوئی منظم ادارہ نہیں جن کی وجہ سے ایسے کئی گمنام ہیروز آج تک گمنام ہیں۔

@muhamad__Mohsin

Leave a reply