چین میں زیرتعلیم پاکستانی طالب علموں کامستقبل تاریک،طالب علم بےچین،حکمران خاموش تماشائی

0
49
چین-میں-زیرتعلیم-پاکستانی-طالب-علموں-کامستقبل-تاریک،طالب-علم-بےچین،حکمران-خاموش-تماشائی #Baaghi

لاہور:چین سے کورونا کے سبب واپس آنے والے پاکستانیوں کامستقبل تاریک،طالب علم بےچین،حکمران خاموش تماشائی،بچپن میں‌ سنا کرتےتھے کہ تعلیم حاصل کریں‌ خواہ تمہیں چین جانا پڑے ، بعد میں کچھ محققین آئے اوران کا کہنا تھا کہ یہ کہاوت درست نہیں مگرپھردنیا نے دیکھا کہ چین واقعی علم کا گڑھ بن گیا اوردنیا بھرسے علم کے پیاسے چین کا رخ کرنے لگے

 

 

 

 

 

 

 

چین کی طرف جانے والوں میں پاکستانی بھی بڑی تعداد میں شامل تھے اوراب بھی یہی شامل ہونے کی خواہش کرتے ہیں‌

اب جب دنیا بھرسے آئے ہوئے طالب علم چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے موجود تھے تو اس دوران اکتوبر، نومبر 2019 میں چین میں کورونا وبا نے سراٹھا لیا اورپھردیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا

اس دوران دنیا بھرکی حکومتوں نے چین سے اپنے طالب علموں کو نکالنے کےلیے ہنگامی بنیادوں‌ پر خصوصی پروازیں بھیجیں اوراپنے طالب علموں کو وہاں سے نکال کے واپس لے ائے

چینی حکومت نے تمام ملکوں سے درخواست کی تھی کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں بہت جلد اس وبا پرقابوپالیا جائے گا اورپھرسے تعلیمی سلسلہ شروع کردیا جائے گا

اس دوران چین نے پاکستانی طلبا کوخصوصی درخواستیں کی کہ یہ آپ کا اپنا گھر ہے ہمیں‌ آپ بہت عزیز ہیں اورکبھی تنہائی کا احساس نہیں ہوگا ، آپ پاکستان نہ جائیں اوراپنے تعلیمی سلسلے جاری رکھیں‌،

 

اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ وہ طالب علم متاثرہوئے جوچینی تعلیمی اداروں میں چھٹیوں‌ کے باعث پاکستان آئے تھے، کیوں اکثرطالب ایسے تھے جودسمبرمیں پاکستان واپس آئے تھے اوران کا خیال تھا کہ وہ جنوری فروری میں‌ واپس چین جا کراپنے تعلیمی سلسلے شروع کرسکیں‌ مگرایسا نہ ہوسکا

ایسے طالب علموں‌ کی تعداد ہزاروں میں ہے ، جن کا مستقبل اب چین کی خواہشات میں دب کررہ گیا ہے، یہ بھی کہا جارہا ہےکہ اگرچین نے اس موقع پرواقعی پاک چین دوستی کا حق ادا نہ کیا تواس کا پاکستانیوں‌ پر منفی اثرپڑے گا

ہاں چین سے واپس آنے والے کچھ ایسے بھی طالب علم تھے جوکورونا کی تباہ کاریوں سے ڈرتےہوئےآئے تھے، اگرطالب علم چین میں ہے تو وہ بھی بے چین تھا اورپیچھے سے اس کے والدین بہن بھائی اوردیگررشتہ دار بھی بے چین تھے ،

ہرکوئی حکومت سے مطالبہ کررہا تھا کہ ہمارے بچوں کو نکال کر پاکستان لے ،کچھ طالب علموں‌ کی مائیں‌ میڈیا پرآآکر روتی تھیں کہ میرے بیٹے چین میں پھنسے ہوئے ہیں ، وہاں کورونا سے دیکھتے ہی دیکھتے ہرکوئی مرتا جارہا ہے ، کوئی کہتا تھا کہ میری لخت جگرچین میں پھنسی ہوئی ہے ، غرض یہ کہ ہرطرف لوگوں کی آہ وبکا کی آوازیں آرہی تھی ،

اس وقت عجیب صورت حال تھی ، کیونکہ کورونا وبا کے آغاز میں جب چین میں ہرطرف تباہی پھیلتی نظرآرہی تھی تو اس وقت چین میں‌ بیھٹے کچھ پاکستانی طلبا اپنے پیاروں ، اپنے والدین ، بہن بھائیوں‌ کو ایسے دردناک مناظروہاں سے بھیج رہے تھے اور اس ان مناظرکو بنیاد بنا کرایسی دہائیاں دے رہے تھے کہ ان کی بے بسی کودیکھ ہرآنکھ سے آنسو جاری تھے

حتی کہ حکومتی اہلکار بھی اس موقع پراپنے جزبات پرقابونہ پاسکے اورعوام کے ساتھ وعدہ کیا کہ ان کے پیاروں کو بہت جلد چین سے پاکستان پہنچایا جائے گا اورپھر ایسے ہی ہوا

اس بے بسی ، بے چینی اورآہ و بکا کے دوران ایسے لوگ بھی سامنے آئے جن کی کہی ہوئی باتیں‌آج سچ ثابت ہورہی ہیں ، ان میں سے بعض نے کہا کہ یہ وبا دنیا بھر میں پھیل رہی ہےاورجب یہ پاکستان میں‌ پھیلے گی توپھریہ طالب علم کدھرجائیں گے اس پربعض والدین نے جزباتی ہوکرسخت تنقید بھی کی

لیکن آج وہ الفاظ واقعی سچ ثابت ہوئے جب پاکستان میں اس وبا نے پنجے گاڑھے اورپھردیکھتے ہی دیکھتے پوری قوم کورونا کی وبا میں پھنس کررہ گئی ہے

اس دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی سید ذوالفقارعرف ذلفی بخاری کی کوششوں سے چین میں پھنسے پاکستانی طلبا کو خصوصی پروازوں کے ذریعے نکال کرپاکستان لانے میں اہم کردارادا کیا

ان غیرملکی طالب علموں کی بےچینی کوختم کرنے کے لیے چین کے وزیر خارجہ وانگ ونبین نےانہی دنوں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ چینی حکومت غیر ملکی طلبہ کے حقوق اور جائز مطالبات کا ہر صورت خیال رکھے گی، اس وقت چینی وزیرخارجہ نے کہا تھا کہ پاکستانی طالب علم چین کواپنا دوسرا گھرسمجھیں گھبرائیں نہ یہ مشکل وقت گزرجائےگا اورجومشکل وقت میں ثابت قدم رہے وہ کامیاب بھی ہوجائیں گے

ان میں سے کچھ ایسے پاکستانی طالب علم جو چین میں ثابت قدم رہے اوربے چینی میں اپنے آپ کو سنبھالا اورپاکستان میں آنے کی بجائے وہاں رہ کراحتیاطی تدابیراختیارکیں وہ آج سب سے زیادہ خوشنصیب ہیں ، جن کی تعلیم بھی ضائع نہ ہوئی اورنہ ہی ان کوکسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش آیا

اس پر چینی حکومت نے پاکستانی حکومت کے ان فیصلوں‌ کو بہت سراہا جس میں پاکستانی حکومت نے عوام الناس کومطئمن کیا تھا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں چین میں پاکستانی طلبا محفوظ اوران کو تمام سہولیات دی جارہی ہیں‌

اس کا کچھ اظہارکراچی میں‌ اس وقت چین کے قونصل جنرل لی بیجیان نے کہا تھا کہ پاکستان کا چین سے اپنے شہریوں کو واپس نہ لانے کا فیصلہ ’بہت ہی مشکل لیکن اچھا‘ ہے۔

لی بیجیان کا کراچی پریس کلب میں ’میٹ دی پریس‘ پروگرام واضح طورپرکہا تھا کہ چین سے شہریوں کو واپس لانے یا وہاں رکھنے کا فیصلہ بہت ہی مشکل تھا لیکن حکومت نے شہریوں کو نہ لانے کا مشکل فیصلہ کیا ہے

 

پاکستان میں چینی حکام کی طرف سے یہ کہا تھا کہ پاکستانی طالب علموں کو چین میں بہتر سہولیات دی جاری ہے۔

’ہماری حکومت ان کو ہر وہ سہولت دے رہی ہے جس کی انہیں کورونا سے بچاؤ کے لیے ضرورت ہے۔ انہیں بہترین سہولیات بشمول حلال گوشت مفت میں مل رہا ہے، ان کے ساتھ ہم اپنے بچوں کی طرح خیال رکھ رہے ہیں‌
بیجیان کے مطابق 50 ہزار پاکستانی ورکرز اور طالب علم چین میں رہ رہے ہیں اور ان کو نکالنے سے وائرس پھیلنے کا خدشہ تھا

بہر کیف بات ہورہی ہےکہ اس کے بعد بڑی تعداد میں پاکستانی طلبا بضد پاکستان واپس پہنچ گئے اورپھروہی کچھ ہوا جن کے خدشات ظاہرکیے جارہے تھے ، وہی طالب علم جن کو چین میں کورونا سے بچاو کے لیے بہترین حفاظتی انتظامات میسر تھے جب پاکستان میں آئے اورکورونا نے ہرطرف تباہی مچادی تو پھریہی طالب علم رونے دھونے لگے اور پھراپنے اس فیصلے پراپنے آپ کو کوسنے لگے کہ بہترہوتا آج چین میں ہوتے اورجس طرح چین سے وبا پر قابو پالیا گیا ہے وہ بھی محفوظ رہتے

اب اس کے بعد جب چین نے کورونا وبا پرقابو پالیا تو جوپاکستانی طلبا واپس پاکستان آچکے تھے اب ان کو چین میں وہ اعلٰی سہولیات اوران کی اعلیٰ‌ تعلیم کی تکمیل کی خواہش بے چین کررہی تھی ، جب یہ بے چینی حد کوبڑھ گئی توان طلبا نے حکومت پاکستان کی منتیں کرنا شروع کردیں کہ ان کو واپس چین بھیجا جائے تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرسکیں

لیکن اس دوران جہاں دنیا بھرمیں کورونا وبا کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا تھا پاکستانی حکومت بھی ان میں سے ایک ہے جس کو بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے ،آبادی زیادہ ہے لوگوں میں شعوربہت کم اوروسائل بھی بہت کم ان حالات میں پاکستانی حکومت کے لیے فی الفوران طالب علموں کوچین بھیجنا بہرحال مشکل دکھائی دے رہا تھا ،

چینی تعلیمی اداروں میں دسمبر کی تعطیلات کی وجہ سے جو 5000 سے زائد پاکستانی طلبا پاکستان آگئے تھے اب اس وقت واپس چین جانے کی اجازت کے منتظر ہیں۔ بظاہر تو ہمسائیہ ملک چین قریب قریب کورونا وبا پر کنٹرول حاصل کر چکا ہے اور غیر ملکی طلبا کو تعلیم مکمل کرنے کی اجازت بھی دے چکا ہے۔لیکن یہ مشروط اجازت اکثرکی پہنچ سے باہر ہے

اگرپاکستان بھرسے اس بات کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ زیادہ تر پاکستانی طلبا کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے گزشتہ سال کے آخری مہینوں میں واپس چین پہنچ جانا چاہیے تھا.

لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ تاخیر کی وجہ سے ان میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ ان طلبا نے پاکستانی اور چینی حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کی واپسی کے نظام الاوقات کو حتمی شکل دیں لیکن ابھی تک دونوں جانب سے کوئی پیش رفت دیکھی نہیں گئی۔

اگریہ دیکھا جائے کہ چین میں کتنے پاکستانی مختلف مضامین میں پی ایچ ڈی کررہے تھے یا کررہے ہیں تو ان کی تعداد جو پچھلے مہینے پاکستان چین ایمبیسی نے ایک گوگل شیسیٹ کے ذریعے چین سے واپس پاکستان آنےوالے طلبا کے سے معلومات لی تھیں ، وہ تعداد 6 ہزار سے زائد ہے

مسئلہ تعداد کا اپنی جگہ مگردیکھنا یہ ہے کہ پی ایچ ڈی اوروہ بی پاکستانی طلبا کی فائنل مراحل میں اگراس میں مزید تاخیرہوتی ہے یا حکومتی سستی کی وجہ سے یہ وقت بھی گزرجاتا ہے تویہ کتنی بڑی بدقسمتی ہوگی

ادھر اس حوالے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے حکومت کے پاس ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہے ، حکومت وعدوں پرٹرخارہی ہے اورصرف سیاسی بیان بازی سے ان بے بس طالب علموں کوللچارہی ہے

دوسری طرف طالب علموں‌ کا یہ کہنا ہے کہ اگرحکومت اس موقع پرکوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتی تو اس سے سے 2016 اور 2017 کے پی ایچ ڈی والے طالب علموں کی ساری محنت ضائع ہوجائےگی ،

اس حوالے سے چین سے واپس آئے ہوئے ایک پاکستانی طالب علم ضیاالحق کہتے ہیں کہ چونکہ پی ایچ ڈی کے لیے چار سال کا پہلے ایک معینہ مدت ہوتی ہے پھراس میں دوبارایکسیٹینشن ہوتی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ ان دوسالوں والے طلبا کا یہ ایکسٹینشن کا پریڈ بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اوراگرحکومت نے کوئی بندوبست نہ کیا توپھران کی ساری زندگی کی محنت مشقت ضائع چلی جائے گی

ادھر چین میں‌ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جانے والے پاکستانی طلبہ کے مسائل کے حوالے سے وزارت سمندر پار پاکستانیزنے چند ماہ قبل یہ کہا تھا کہ ’یہ مسئلہ ہمارے علم میں ہے اور اس حوالے سے طلبہ سے بات چیت بھی کی گئی تھی لیکن یہ مکمل طور پر دفتر خارجہ کا کام ہے اور دفتر خارجہ ہی اس حوالے سے کچھ بتا سکتا ہے۔‘

جبکہ دوسری جانب دفتر خارجہ کے حکام اپنی جان چھڑانے کے لیےیہ کہتے ہیں کہ ’چین کی جانب سے سفری پابندیاں صرف پاکستان پر نہیں بلکہ دیگر ممالک پر بھی عائد کی گئی ہیں اور اس سلسلے میں ہم چینی حکومت سے رابطے میں ہیں اور جلد ہی اس حوالے سے کوئی حل نکل آئے گا۔‘

یاد رہے کہ اس معاملے پرتیسرا فریق یا سہولت کار پاکستان پی آئی اے ہے جس کے ترجمان عبد اللہ حفیظ نے چین کی فلائٹس کے حوالے سے بتا چکے ہیں‌ کہ چین کی جانب سے سفری پابندیوں کے باعث صرف خصوصی پروازیں چلائی جارہی ہیں۔ اگر حکومت چین سے خصوصی اجازت دلواتی ہے تو پی آئی اے پروازیں چلا سکے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت پی آئی اے کا چین کے لیے محدود آپریشن جاری ہے جو کہ خصوصی اجازت کے بعد ہی آپریٹ کیا جارہا ہے جس میں بزنس اور ری یونین ویزہ رکھنے والوں کو سفر کرنے کی اجازت ہے۔

اس موقع پر یہ بات بھی یاد رہے کہ چین میں زیادہ تر پاکستانی طلبا چینی حکومت کے وظیفوں پر تعلیم مکمل کرنے چین گئے ہوئے ہیں۔ اب ان کے وظیفے بھی بیجنگ حکومت نے گزشتہ ایک برس سے روک رکھے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق کسی ایک پاکستانی طالب علم کو چین کی جانب سے 70 ہزار سے 90 ہزاربطور وظیفہ دیا جاتا ہے۔

2018 کے اعدادوشمار کے مطابق چین میں 28 ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو چین میں غیر ملکی طلبہ کی تیسری بڑی تعداد ہے۔

سب سے زیادہ تعداد پچاس ہزار شمالی کوریا کے طلبہ ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر تھائی لینڈ ہے جس کے 28 ہزار 608 طلبہ چین میں مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

چین میں مجموعی طور پر 196 ممالک کے چار لاکھ 92 ہزار سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور 2018 کے مقابلے میں 2019 میں اس تعداد میں 0.62 فیصد اضافہ ہوا ہے

یہ بھی یاد رہے کہ اس حوالے سے باغی ٹی وی مسلسل چین میں‌ زیرتعلیم پاکستانیوں کے دل کی آواز بنتا رہا ہے اورچین سے آئے ہوئے ہزاروں پاکستانی طالب علموں کی اس دکھ بھری داستان اوران کی آواز کو وزیراعظم پاکستان اورچینی حکومت تک پہنچانے کے لیے معروف سینیئرتجزیہ نگار،ممتازصحافی مبشرلقمان بھی پہنچا چکے ہیں اورابھی بھی وہ اس سلسلے میں ان اپنے معماروں کے محفوظ مستقبل کے لیے ہرفورم پراس مسئلے کواٹھا رہے ہیں‌

Comments are closed.