اگرحکومت ہمارے 38 مطالبات مان لےتوہماری حکومت سے کوئی لڑائی نہیں:پاکستان پیپلزپارٹی

0
46

کراچی :اگرحکومت ہمارے 38 مطالبات مان لے توہماری حکومت سے کوئی لڑائی نہیں:پاکستان پیپلزپارٹی نے وزیراعظم عمران خان کی طرف ہاتھ بڑھا دیا، اطلاعات کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی نے عوامی مارچ کے 38 مطالبات کے نکات کو جاری کردیا اور کہا کہ اگر حکومت ہمارے یہ مطالبات مان لیتی ہے تو ہمیں حکومت پرکوئی اعتراض‌ نہیں اور نہ ہی ہماری کوئی لڑائی ہے

ہاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے جومطالبات پیش کیئے گئے ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں‌ ہے ،

حکومت ہر سطح پر ایماندارانہ اور آزادانہ انتخابات کروائے جائیں،

1973 کے آئین کے مطابق حکومت کا نظم و نسق چلایا جائے،

1973 کے آئین میں دئیے گئے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے جدا جدا اختیارات کے اصولوں کی پاسداری کی جائے،

تمام اداروں کے اپنی اپنی آ ئینی حدود میں رہتے ہوئے کارکردگی اور اختیارات ہوں،

پارلیمنٹ اور کمیٹی سسٹم کا استحکام اور پائیداری کی جائے،

اعلی عد لیہ کے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کے 1973 کے آئین میں دئے گئے کردار کا ازسر نو تعین کیا جائے، پ

آزاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کا قیام کیا جائے، پی پی پی عوامی مارچ کا مطالبہ

قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے، پی پی پی عوامی مارچ کا مطالبہ

ایک آزاد اور قابل احتساب عد لیہ کو ممکن بنایا جائے، پی پی پی عوامی مارچ کا مطالبہ

ملک بھر کے تمام مزدوروں کو سندھ کی طرز پر یونین سازی کا حق دیا جائے، پی پی پی عوامی مارچ کا مطالبہ

طلبا کے لئے یونین سازی کا حق اور طالبعلموں کی فلاح و بہبود کےامور میں ان کا فیصلہ ساز کردار تسلیم کیا جائے،

آزادی اظہار کے حق کو یقینی بنایا جائے،

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں باضابطہ اور غیر اعلانیہ دونوں قسم کی سنسر شپ کا خاتمہ کیا جائے،

میڈیا کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات کے مطابق پیمرا کی آزادی کے لئے نئی قانون سازی کی جائے،

سائبر کرائم قانون کی تمام غیر منصفانہ اور جابرانہ دفعات کا خاتمہ کیا جائے،

تمام پبلک اداروں میں ڈیٹا کے تحفظ کے لئے نئی قانون سازی کی جائے،

تمام ضرورت مند مردوں اور خواتین کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی توسیع اور اصلاح کی جائے،

ایک مساوات کمیشن کا قیام کیا جائے جو صوبوں کی مشاورت سے تمام خواتین اور اقلیتوں کے لئے منصفانہ اجرت اور روزگار پالیسی مرتب کرے،

خواتین کے خلاف تشدد، گھریلو تشدد، تیزاب کے حملوں اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے قوانین پر لازمی عملدر آمد کو یقینی بنایا جائے،

تمام پبلک مقامات ، پبلک ٹرانسپورٹ اور پبلک سہولیات میں خواتین، بچوں اور خصوصی اقلیتوں کے افراد کا باسہولت داخلہ یقینی بنایا جائے،

16 سال کی عمر تک بچوں کی آئین میں دی گئی شق کے مطابق لازمی تعلیم کو ایک مقررہ مدت کے اندر اندر یقینی بنایا جائے،

قابل استطاعت صحت اور علاج معالجے کے حقوق کی فراہمی کو سرکاری اور منظور شدہ نجی شعبے کے اسپتالوں کے نیٹ ورک کے ذریعے یقینی بنایا جائے،

ان خواتین کے لئے جنہیں زچہ اور بچہ کے سلسلے کی مفت خدمات اور نقد معاوضے کی ضرورت ہے ایک مقررہ مدت کے اندر اندر ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے،

اقلیتوں کی جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کیا جائے،

صوبائی خودمختاری اور آئین کی اٹھارویں ترمیم اور آئین کی دیگر شقوں کے تحت دئے گئے صوبائی حقوق مثلا نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے مقررہ مدت پر اجرا کی گارنٹی دی جائے،

بلوچستان کے عوام کے پاکستان کے آئین کے تحت دئیے گئے حقوق کی یقینی فراہمی اور ان کی فیصلہ سازی کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے،

ایسے افراد کے سوا جن پر خطرناک نوعیت کے الزامات ہیں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانا اور سیاسی گفت و شنید کے ذریعے بلوچ سیاسی رہنماوں کو ملک میں واپس لانے اور ان کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے،

آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت تیل اور گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو ان کی تیل اور گیس کی پیداوارپر اپنی ضروریات پوری کرنے کے ترجیحی حقوق کو موثر بنایا جائے،

پر تشدد انتہا پسندی کی بیخ کنی کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے،

جنوبی پنجاب کے عوام کی شناخت اور ان کی خواہشات کے مطابق جنوبی پنجاب کے نئے صوبے کا قیام اور اس علاقے کو نظر انداز کئے جانے اور اس کی پسماندگی کا خاتمہ کیا جائے،

گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے علاقہ جات کی مالیاتی خودمختاری اور ان کو ان کے ریونیو اور مرکز سے تفویض کردہ مالی وسائل پر مکمل اختیار دیا جائے،

مزدوروں کو قابل گزارہ اجرت کی ادائیگی کا حق دیا جائے،

تمام مزدوروں بشمول ان مزدورں کے جو معیشت کے ان فارمل شعبوں ، کنٹریکٹ لیبر ، اپنے گھر سے کام ، گھریلو ملازمین اور موسمی مزدورہیں سوشل سیکیورٹی کا تحفظ فراہم کیا جائے،

زرعی شعبے کے مزدوروں اور چھوٹے کسانوں پر لیبر قوانین ، کم سے کم اجرت کے قانون ، سوشل سیکیورٹی اور زیادہ سے زیادہ کام کے اوقات کے قوانین کا اطلاق کیا جائے،

اس وقت سندھ واحد صوبہ ہے جس میں خواتین کھیت مزدوروں کو رجسٹر کرنے اور اان کو قانونی تحفظ اور حقوق فراہم کرنے کے لئے قانون پاس کیا گیا ہے، ان قوانین کو تمام ملک میں لاگو کیا جائے،

زرعی اجناس کی قیمتوں اور ان پر سبسڈی کے لئے ایک نیا فریم ورک تشکیل دیا جائے جس سے قومی پیمانے پر غذائی تحفظ کے حق کی پاسداری، مستحکم نرخوں اور شہری اور دیہی عوام کی یکساں آمدنی کو یقینی بنایا جائے،

غریب طبقات کے لئے رہائش کی فراہمی کے حق اور ان کو جبری طور پر گھر سے بے دخل کرنے کے خلاف قانون سازی کی جائے،

کچی آبادیوں اور انتہائی پسماندہ علاقوں کو ریگولرائز کرنے اور ان کو بنیادی شہری سہولتیں فراہم کرنے کے لئے قانونی فریم ورک کی تیاری کی جائے،

یاد رہے کہ اس پہلے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ عمران خان نےعوام کے ووٹ اور پیٹ پر ڈاکا مارا، کٹھ پتلی کے گھر جانے کا وقت آ گیا، ہمارا عوامی مارچ حکومت کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

لانگ مارچ کی روانگی سے قبل خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ قائد عوام اور شہید بینظیر کے نامکمل مشن کو مکمل کرنے کیلئے نکلے ہیں، ہرپاکستانی کےحقوق کا تحفظ کریں گے۔ عمران خان نے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا، کرپشن ختم کرنے کا وعدہ کیا مگر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق عمران خان حکومت کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ چکی۔

یہ پاکستان کی کرپٹ ترین حکومت ہے۔ موجودہ حکومت اٹھارویں ترمیم کوختم کررہی ہے، این ایف سی ایوارڈ نہیں دے رہی۔ وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں، سندھ حکومت کم وسائل کیساتھ زیادہ محنت کر کے صوبے کی خدمت کر رہی ہے، عمران کو بھگائیں گے تو تمام صوبوں کو ان کا حق ملے گا، اب وقت آ گیا کہ ہم وفاقی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لیکر آئیں۔ عمران خان نےانسانی حقوق پرحملہ کرچکے،اب ہم برداشت نہیں کرسکتے، ہم یہاں سے نکلیں گے تو بنی گالا سے چیخیں آئیں گی، اسلام آباد پہنچ کر اس حکومت پر حملہ کریں گے۔

Leave a reply