اسٹیج سج گیا:اب بس فائنل پرفارمنس ہونا باقی ہے: تحریر:-نوید شیخ

گزشتہ روز ق لیگ سے ملاقات کے حوالے سے وزیروں اور مشیروں کی جانب سے خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ معاملات حل ہوگئے ، چیزیں طے ہوگئیں ۔ مگر اس حوالے سے متضاد خبریں فورا ہی رپورٹ ہوگئیں ۔ سب سے پہلے تو ق لیگ کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے واضح الفاظ میں کہا دیا ہے کہ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا عدم اعتماد میں حکومت کے ساتھ ٹھہرنا ہے یا خلاف جانا ہے۔ چوہدری صاحب مشاورت کررہے ہیں۔

نوید شیخ کہتے ہیں‌کہ پھر اس خبر کی تصدیق نہیں ہوئی مگر اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ ق کا پانچ رکنی وفد چوہدری پرویز الہی کی سربراہی میں شہباز شریف سے ملنے جائے گا۔ اور یہ ملاقات ہفتہ یا اتوار کو ہوسکتی ہے ۔ یوں اگر یہ ملاقات ہوجاتی ہے تو جو وزیر اور مشیر ہم کو بتا رہے ہیں معاملات ویسے نہیں ہیں ۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ویسے یہ میں پہلے بتا چکا ہوں مگر پھر یاد کروادوں کہ اس ہفتے اپوزیشن کے تین بڑوں شہباز شریف ، مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری نے پھر ملنا ہے اور چیزیں فائنل کرنی ہیں ۔ شاید کوئی اعلان بھی ہو جائے ۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان اشارہ کرچکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن قیادت اپنا ہوم ورک مکمل کرچکی ہے۔ اگلے دو سے تین دن بہت ہی اہم ہیں، ہوسکتا ہے اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں بڑی خوشخبری آجائے گی۔ انکا کہنا تھا کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں، حکومتی اتحادیوں سے بھی ہم سب رابطے میں ہیں۔ اپوزیشن تمام حل طلب امور پر اتفاق رائے کرکے بہت آگے پہنچ چکی، پھر ان کے مطابق اپوزیشن نے اپنے تمام اراکین اسمبلی کو اسلام آباد فوری پہنچنے کی ہدایت کردی ہے ۔

شاید اسی لیے شاہد خاقان عباسی نے دعوی کیا ہے کہ ق لیگ کے پانچ ارکان ہیں۔ ان کے بغیر بھی عدم اعتماد ہو جائے گی۔

اس حوالے سے خبر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر ناراض ارکان قومی اسمبلی کی تعداد کم وبیش پندرہ سے بیس ہے اور اپوزیشن کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرنے کے لیے صرف تیرہ ارکان کی حمایت درکار ہے۔ پھر ایوان میں اپوزیشن کے ارکان کم وبیش 160 ہیں مگران میں بھی کچھ اوپرنیچے ہوسکتے ہیں اس لیے آصف علی زرداری اور شہباز شریف کم ازکم 25 حکومتی ارکان توڑنے کیلئے کوشاں ہیں۔

دوسری جانب ایم کیو ایم بھی کوئی پکڑائی نہیں دے رہی ہے ۔ روز خالد مقبول صدیقی ایسے بیانات دے رہے ہیں جس سے تاثر مل رہا ہے کہ ان کی حکومت کے ساتھ ان بن ہے ۔ آج بھی انکا کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی حکومتوں سے نکلتے رہے ، اب بھی نکلیں گے۔ اس سلسلے میں انھوں نے 1987کے دور کا بھی حوالہ دیا ۔ یاد کروادوں 1989 میں ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی کی اتحادی ہوتے ہوئے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ دیا مگر وہ ناکام ہوگئی اور بعد میں خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔ اسی لیے شاید اب عمران خان ایم کیو ایم سے بھی ملنا چاہتے ہیں اور جی ڈی اے سے بھی ۔۔۔

مگر یہ وہ ہی عمران خان ہیں جب مظاہرین سخت سردی میں کوئٹہ میں لاشیں رکھ کر بیٹھے تھے تو انھوں نے کہا تھا میں بلیک میل نہیں ہوگا ۔ یہ وہ ہی وزیر اعظم ہیں جو اپنے سب سے پرانے ساتھی نعیم الحق کے جنازے میں شرکت کرنے نہیں گئے یہ وہ ہی وزیر اعظم ہیں جنہوں نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں شرکت نہیں کی ۔ مگر اب جب اپنی کرسی جاتی دیکھائی دی تو یہ تمام چیزیوں کو سائیڈ پر رکھ کر ہر کام اور ہر چیز کرنے کو تیار ہیں ۔

نوید شیخ یہ بھے دعویٰ کرتے ہیں کہ برطانیہ میں موجود صحافی رپورٹ کررہے ہیں کہ کل لندن میں انتہائی اہم ملاقات میں آخری معاملات طے ہوگئے ہیں ۔ اس ملاقات کی ایک شخصیت تو نواز شریف بتائی جارہی ہیں دوسری کے بارے میں راوی خاموش ہے ۔ ہاں البتہ یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ حسین نواز اور اسحاق ڈار اس ملاقات سے آگاہ ہیں ۔

تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے نمبر گیم یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے172 کا نمبردرکارہے۔ اور حکومت کے پاس178اور اپوزیشن کے پاس162
کا نمبرزہے، حکومت کوعدم اعتماد کا سرپرائز دینے کےلیے اپوزیشن کو دس ارکان کی حمایت درکار ہے۔ سات اراکین قومی اسمبلی جہانگیرترین کےساتھ بتائے جارہےہیں۔ جبکہ ایم کیوایم کےسات اورق لیگ کی پانچ سیٹیں اہمیت کی حامل ہیں،ان تین میں سےدوکھیل کی بازی بدل سکتے ہیں۔

اس وقت اپوزیشن پوری طرح عدم اعتماد لانے پر تلی بیٹھی ہے کہ اور حالات بھی ان کے لیے سازگار نظر آتے ہیں۔ بلاول کا مارچ زور و شور سے جاری ہے اور انہوں نے دو اڑھائی درجن مطالبات بھی کئے ہیں۔ ان کو کائونٹر کرنے کے لیے شاہ محمود قریشی بھی سندھ کے حقوق کے لیے نکلے ہیں۔

مگر سیاست کی اس گھمبیر صورتحال میں ابھی تک کچھ وزیروں کو ستے خیراں دکھائی دے ر ہی ہے۔ جو بیانات سنائی دے رہے ہیں وہ اپوزیشن کو کھلا چیلنج کر رہے ہیں کہ اگر اپوزیشن میں ہمت ہے تو وہ تحریک عدم اعتماد لے آئے۔

دیکھا جائے تو عمران خان کو کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے اوران کی ٹیم میں شامل ممبران کوئی صلاحیت نہیں رکھتے اور جو صلاحیت رکھتے تھے وہ نظر انداز کر دیئے گئے ۔

کیونکہ اب تک تو ان کی کارکردگی یہ ہے کہ یہ نان ایشوز کو اپنے گلے میں ڈال لیتے ہیں۔ مثلاً ریحام خان والا معاملہ کب کا دب چکا تھا اور وہ کتاب لکھ کرکب کی سائیڈ پر بیٹھی تھیں حکومت نے محسن بیگ ہر ہاتھ ڈال کر جہاں اس کتاب کی خوب مشہوری کروائی ساتھ ہی پیکا آرڈیننس مسلط کرنے کی ضد میں میڈیا اور صحافیوں کو بھی اپنے خلاف کروالیا ۔

دیکھا جائے تو ایک بڑی سیاسی غلطی پورے نظام کو لپیٹ سکتی ہے۔ غالباً وزیر اعظم عمران خان کوئی بڑا فیصلہ کرچکے ہیں بس اعلان ہونا باقی ہے اور گوکہ ان کی پیرکے روز کی جانیوالی تقریر میں تھوڑی سی گھبراہٹ ضرور نظر آئی جس کی وجہ سے اپوزیشن یہ کہنے میں حق بجانب تھی کہ لانگ مارچ کے دوسرے دن ہی عوام کو ریلیف مل گیا۔ جہانگیر ترین یاد آگئے اور چوہدریوں سے مدد مانگ لی۔

یہ اپوزیشن کا ہی پریشر ہے جو آجکل عمران خان کے دل میں عوام کو بہت درد جاگ رہا ہے ۔ آج بھی انھوں نے کہا کہ جو ٹیکس کا جو پیسہ اکٹھا ہو گا وہ ساراعوام پر خرچ کروں گا ۔ دراصل انکو معلوم ہوگیا ہے کہ اب لوگوں نے تبدیلی کے آگے ہاتھ جوڑ لیے ہیں۔

نوید شیخ کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ اپوزیشن ہی ہوتی ہے جو حکومت کے عوام مخالف اقدامات پر تنقید کرتی ہے اور ایسا سیاسی ماحول بناتی ہے کہ حکومت مجبوراً عوام کو ریلیف دیتی ہے تا کہ اس کو عوامی تائید و حمایت حاصل رہے۔

عمران خان نے جس قسم کے ریلیف کا اعلان کیا ہے، وہ اپنی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کی ایک کوشش ہے۔ انھیں سمجھ آرہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ان کے خلاف اکٹھی ہو گئی ہیں۔ عدم اعتماد کا معاملہ سنجید ہ ہے اور اس میں ان کے اقتدار کو شدید خطرہ ہے۔ اس لیے جاتے جاتے انھیں عوام کو ایسا ریلیف دینا چاہیے کہ وہ کہہ سکیں، اب تو ریلیف دینے کا وقت آگیا تھا اور مجھے نکال دیا گیا۔

اس طرح انھیں نکالنے کے بعد ان کے پاس ایک بیانیہ ہوگا، وہ کہیں گے پاکستان کی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی تھی، میں نے عوام کو ریلیف دینا شروع کر دیا تھا، پھر کرپٹ لوگ آگئے اور سارا عمل رک گیا۔

عمران خان خود بھی فوری انتخابات بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ ایسے اقدمات کر رہے ہیں جن سے انھیں انتخابات میں مدد مل سکے۔

اس لیے دکھائی دینا شروع ہوگیا ہے کہ عمران خان نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اب پاپولر پولیٹکس کریں گے چاہے آئی ایم ایف ناراض ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ یہ کرسی کا معاملہ ہے ۔

آپ دیکھیں عمران خان کے موجودہ دور حکومت میں اپوزیشن کو مسلسل دباؤ میں رکھا گیا۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو زیادہ عرصہ گرفتار رکھا ۔اسی طرح اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کو بھی گرفتار رکھا گیا۔ جس کی وجہ سے حکومت پر عوام کی خدمت کا کوئی دباؤ ہی نہیں تھا، اسی لیے حکومت عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالتی رہی ۔ پہلی دفعہ ہم نے دیکھا کہ قائد حزب اختلاف کو تقریر کرنے سے روکا گیا۔ پارلیمانی رویات میں یہ کام اپوزیشن کرتی ہے کہ حکومت کی تقاریر میں شور کرتی ہے۔ اس طرح جیسے جیسے پارلیمان میں اپوزیشن کی آوا ز کو دبایا گیا ویسے ویسے حکومت کی عوام پر زیادتیاں بڑھتی رہیں۔ کیونکہ جب حکومت کو اپنے اقتدار کے لیے کوئی خطرہ ہی نظر نہیں آئے گا تو وہ عوام کی خدمت کیوں کرے گا۔ جمہوریت کا حسن ہی یہ ہے کہ عوام کے پاس واپس جانے کا خوف آپ کو عوام کی خدمت کرنے پر مجبور کیے رکھتا ہے۔ اگر عوام کے پاس جانے کا خوف ختم ہو جائے تو عوام کی خدمت بھی ختم ہو جاتی ہے۔

آخر میں بس یہ ہی کہوں گا کہ کرکٹ کے میدان میں تو لاہور قلندر جیت چکی ہے دیکھانا یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں یہ جیتے ہیں کہ نہیں ۔۔۔

Comments are closed.