بظاہر تو ہمیں یہ نظر آرہا ہے کہ افغانستان کی جنگ ختم ہورہی ہے اور امریکہ یہاں سے شکست کھا کر جارہا ہے، لیکن اسی طرف خطے میں ایک عالمی جنگ کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے۔ آج کہا جارہا ہے، خوش ہورہے ہیں کہ طالبان جنگ جیت رہے ہیں، اور ماضی میں ہم امریکہ کےساتھ ملکر طالبان کے خلاف جنگ بھی کرتے رہے اور ہم پر امریکہ بے تحاشا زبان تراشی بھی کرتا رہا، کیا آپ یہ تسلیم کرتے ہیں دنیا کی سپر پاور اب اتنی آسانی سے شکست تسلیم کرلے گی؟
یہ مت بھولیے کہ ہمارے ہاں جو بھی یا کسی بھی قسم کی سیاسی تبدیلیاں آتی ہیں اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ اس وقت افغانستان میں لڑائی شدت اختیار کر چکی ہے، طالبان بڑے شہروں کے اندر گھس چکے ہیں اور گمسان کہ جنگ شدت اختیار کرچکی ہے، طالبان اب اندرون شہر گھس کر جو افغانستان کے سب سے اہم صوبے اور شہر ہیں جن کو سقوط کابل سے پہلے بہت اہم کہا جارہا ہے طالبان وہاں قبضہ کرتے چلے جارہے ہیں ۔ اب امریکہ جارہا ہے اسے ہماری ضرورت ہے، لیکن امریکہ بہت منافق ہے وہ اب ہم پر الزام پر الزام لگائے جارہا ہے،معاملات بہت سنجیدہ ہیں۔جوبائڈن بہت شاطر آدمی ہے۔ وہ بھی کلنٹن کی طرح اس خطے کی سیاست کو جانتا ہے اور وہ آخر پراپنا پتا شو کرے گا، جس پر پاکستان کو بہت سی مشکالات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکہ اب نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتر رہا ہے اور وہ پاکستان میں آزادی کی تحریکوں کو جنم دے رہا ہے اور نور ولی محسود کا پاکستان کے قبائلی علاقوں پر قبضہ کرنے کا بیان اسی چیز کی کڑی ہے، امریکہ افغانستان کی پشتون آبادی اور پاکستان کی پشتون آبادی کو ملا کر ایک آزادی کی تحریک شروع کردے گا اور جس طرح داؤد خان نے پاکستان کے مغربی بارڈر پر حملے کیے اور اب وہی صورتحال بنتی ہوئی نظر آرہی ہے، 1950 اور 60 کی دہائی میں جب افغانستان میں داؤد خان کا دور تھا تو قبائلی پشتونوں نے افغان آرمی کے ساتھ ملکر چمن بارڈر پر حملہ کیا اور 30 میل تک اندر گھس آئے اور مزید جھڑپیں بھی پوتی رہیں، وہ الگ پختونستان چاہتے تھے۔ چین اب اس خطے میں پوری طرح سے ایکٹو ہے اور وہ بیک ڈور ڈپلومیسی کو ترجیح دے رہا ہے۔
تو اب خطے کے حالات خطرناک دوراہے پر ہیں_
twitter.com/RanaUzairSpeaks