توبہ اور تقویٰ اختیار کرنے سے دین و دنیا کی کامیابی سمیٹی جاسکتی ہے،رحمت ہی رحمت افطار ٹرانسمیشن

باغی ٹی وی :رحمت ہی رحمت افطار ٹرانسمیشن میں آج تقویٰ ،توبہ اور رمضان کے موضوع پر بات ہوئی ، اس سلسے میں تمہیدی کلمات بیان کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا کہ ماہ رمضان کے مبارک مہینے میں جتنی توبہ کریں اور تقوی اختیار اتنا ہی بہتر ہے اور ہماری بخشش کا سبب بن سکتا ہے. تقویٰ کبیرہ گناہوں سے بچنے کا نام ہے. کتنی ہی قرآنی آیات ہیں جن میں‌تقویٰ کا تقاضا کیا گیا ہے. اور ترک تقوی پر عزاب کی شنید ہے. سورۃ آل عمران میں ہے ” کہ تم اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جتنا تم سے ہوسکے” قرآن مجید میں‌دو سو چھتیس آیات میں تقوٰی کا درس دیا گیا ہے. اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انبیاء کرام آئے انہوں نے اپنی اپنی امت اورقوم کو تقویٰ اختیار کرنےکا حکم دیا . ایک جگہ پر اللہ ارب العزت نے مومنوں سے ارشاد فرمایا کہ ” اے ایمان والوں تم اللہ سے تقویٰ‌اختیار کرو جیسے تقوٰی اختیار کرنے کا حق ہے .
تقویٰ‌ کے معنی یہ ہے کہ ان چیزوں سے اجتناب کرنا جس سے انسان کو ضرر کا خوف ہے . عام الفاط میں اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان کا ان کاموں سے بچنا جو اس کے لیے آخرت میں‌ غضب خداوندی کا باعث‌ ہو.
جب ہم توبہ کی بات کریں تو اس یہ تین قسموں کی توبہ ہوتی ہے.بندے کی توبہ درمیان میں ہوتی ہے . اس کے آگے پیچھے توبہ ہوتی ہے . پہلی اور آخری توبہ نے بندے کو اپنے دائرے میں‌گھیرا ہوتا ہے . وہ اللہ رب العزت کی تو بہ ہے ، جب بندے کی توبہ کا کہا جائے تو اس کا مطلب ہے بندے کا توبہ کرنا اللہ کی طرف لوٹا آنا . اپنے گناہوں اور ظلم پر اللہ سے معافی مانگنا. بندے کو اللہ نے فرشتے جیسا نہیں بنیایا ان سے خطا ہو سکتی ہے ، اور پھر بندے کو اپنے اللہ سے توبہ کرنی چاہیے ، حضرت آدم نے بھی اپنے اللہ سے توبہ کی اور کہا کہ ” کہ ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کر لیا ہے اگر تم نے ہیمں‌ معاف نہ کیا اور ہمارے اوپر اپنا رحمت نہ کی تو ہم ظالموں میں‌سے ہو جائیں گے،
آج کے مہمان وائی ڈی اے کے ممبر ڈاکٹر آمنہ اور ڈاکٹر محمد عمران تھے ، موجودہ وباء کے حولے سے ڈاکٹر عمران نے بتا کرتے ہوئے کہاکہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ آئی ہے کہ پاکستان میں‌ ڈاکٹرز اور طبی عملے کی کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کی نسبت دوسرے ممالک سے بہت زیادہ ہے ، امریکہ ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں‌ سے زیادہ ہے، ہماری حکومت پہلے ٹیسٹ‌نہیں کررہی تھی .اب جب انہوں نے ٹیسٹ کرنا شروع کردیا ہے تو اب یہ وباء بڑی تیزی سے سامنے آتا شرع ہوگئ ہے . اور یہ تعداد بہت ہی تشویشنا ک ہے .
ایک سوال کے جواب میں کہ جو کٹس ٹیسٹ کے لیے آئی ہیں، ان سے صرف سکریننگ ہورہی ہے . لیکن ہم کہتے ہیں کہ سکریننگ ہی ٹھیک سے کی جائے ، انہوں‌ نے کہا کہ جو کٹس چائنا سے آئی تھی ان کا آڈٹ بھی کیا جانا چاہیے کہ وہ کہاں گئی ہیں.
ایک سوال کے جواب میں کہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹروں کو کٹس نہیں‌دے رہیں، مریضوں کو علاج کی سہولت نہیں دی جارہی اور حکومت کو صحیح طور پر معلومات فراہم نہیں‌کی جارہیں. اس بر ڈاکٹر آمنہ نے کہا کہ ہم نے جب یہ سارے مسائل شاہ محمود قریشی کے سامنے رکھے تو انہیں ان سب کا علم ہی نہیں تھا..انہوں نے کہا کہ جو کٹس ہمیں دی جارہی ہیں. ان کا معیار بھی قابل بھروسہ نہیں ہے جو ہمیں ماسک دیے جارہے ہیں وہ اوپن ہوتے ہیں. ان کپڑوں پر بھی وائرس ہوستکا ہے .اسی طرح ایک کالر نے کہا کہ حکومت نے لاک ڈاؤن کھول دیا ہے جبکہ مریض زیادہ ہو رہے ہیں اور لاک ڈ‌اؤن کھول دیا گیا ہے .تو اس سے صورت حال مزید خراب نہیں ہوگی ، اس کے جواب میں‌ڈاکٹر آمنہ نے کہا کہ پہلے ایمر جنسی میں‌جو مریض آتے تھے وہ اتنے کرریٹیکل نہیں‌ہوتے تھے لیکن جو اب مریض‌آرہے ہیں وہ بہت خطرک صؤرتحال میں ہوتے ہیںِ .
ترکی سے سینئر تجزیہ کار سہیل احمد گوئندی نے ایک سوال میں‌ کہ لاک ڈاؤن بارے سندھ پنجاب اور وفاق ایک پیج پر کیوں‌نہیں‌ ہیں کہا کہ ہماری سوسائٹی بکھری پڑی ہے . ہمارے ہاں ریاست میں بھی تقسیم ہے اور سوسائٹی کے اندر بھی تقسیم ہے . جبکہ ایسے متفقہ فیصلے کرنے کے لے متفق اور ایک پیچ پر ہونا بھی بہت ضروری ہے .جب آپس میں یہ اختلاف ہوتا تو نہ صرف کرونا پر اس طرح تقسیم ہوتی ہے بلکہ عدلیہ ، ادارے اور سب آپس میں بکھرے ہوئے ہوتے ہیںِ حکمرانوں کا عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے . صرف ووٹ‌لینے کے لیے ان کا پاس جاتے ہیں. پھر ان کے مسائل اور ضڑوریات کو نہ سنا جاتا ہے نہ ان کی یہ ترجیح ہوتی ہے.
ڈاکٹر حضرات نے کہا کہ اس وقت اگر لاک ڈاؤن ختم کردیا تو ہمارا ہیلتھ سسٹم بالکل ناکام ہو جائے گا. اس وقت بھی آئسو لیش سنٹرز میں بیڈ میسر نہیں‌ہیں. جب یہ لاک ڈاؤن کھلے گا تو کیا صورت حال ہوگی ،یہ بات بہت الارمنگ ہے.
پی پی پی کے رہمنا حیدر زمان قریشنی نے کہا کہ اس وبا کے سلسلے میں ڈاکٹرز ہمارے فرنت لائن سولجرز ہیں. جب جنگ ہو تو اپنے سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے . ان کا مورال بلند کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ڈاکٹرز کو ڈنڈے مارے جاتے ہیں ، ان کو دھکے دیے جاتے ہیں. . نہ ان کو بنیادی حفاظتی سامان مہیا کیا جاتاہے . ایس انہیں ہونا چاہیے.
مذہبی سکالر ڈاکٹر عمران نے تقویٰ کی روح بتاتےہوئے کہا کہ اللہ نے ہم پر اپنے احکام نافذ کیے ہیں ، اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم گرمی میں بھوک پیاس کاٹتے ہیں. اسی طرح سردیوں میں پانی سے وضو کر کے اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو اللہ کو اتنی رکعات ہم سے مطلو ب نہیں ہیں، بلکہ وہ ہمارے اطاعت اور فرمانبرداری کے لیول کو دیکھنا چاہتے ہیں کہ کس جذبے سے بندہ اپنے رب کی اطاعت کرتا ہ .

Shares: