توبو الی اللّٰــــہ توبۃ نصوحا بقلم:جویریہ بتول

توبو الی اللّٰــــہ توبۃ نصوحا…!!!
(بقلم:جویریہ بتول).

ہم گزشتہ سال سے ایک اضطراب،وہم اور پریشانی کی کیفیت میں مبتلا ہیں…
کورونا وائرس کی وبا نے اپنے شکنجے میں کس کر ہر اعتبار سے ہمیں مفلسی کی طرف دھکیلا ہے…وہ تعلیمی اداروں کے بے ترتیب شیڈول ہوں یا کاروبارِ زندگی کے دیگر مرحلے…خوشی و غمی کے مواقع متاثر ہو کر رہ گئے…غریب و دیہاڑی دار طبقہ کام نہ ملنے کی وجہ سے پریشان دکھائی دینے لگا…بڑے کاروباروں کو بھی دھچکا لگا…
ہم عبادت گاہوں سے بھی دُور ہوئے…
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس دوران ہم نے اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کی…تنہائی کے یہ لمحات ہمیں اپنے دریدہ دامن رفو کرنے پر آمادہ کر پائے یا نہیں…
ہر اعتبار سے گناہوں کی آلودگی سے متاثر ہوتے ہوئے ہم ندامت و توبہ کے چند آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ سچے دل سے بارگاہ الٰہی میں جھک گئے؟
ہم نے اپنے تمام معاملات درست کرنے کی نیت کر لی ؟
کیا بے یقینی اور خوف کی اس کیفیت میں ہم سچے دل سے اپنی اصلاح پر آمادہ نظر آتے ہیں؟
یہ وبائیں اور بلائیں بڑی آزمائش ہوا کرتی ہیں اور انہیں رضائے حق کے نشان بھی نہیں کہا جا سکتا جب کہ قوم میں تمام تر برائیاں پوری شدت سے موجود بھی ہوں…
تب صرف ایک حل نکلتا نظر آتا ہے اور وہ ہے توبہ کے ارادے سے اپنے گناہوں پر نادم ہو کر استغفار کرنا…
بندے اور رب کے حضور توبہ کے درمیان کوئی حائل نہیں ہو سکتا…
یاد ہے ناں قرآن تو سب پڑھتے ہوں گے شھر القرآن سے گزرتے ہوئے کہ مشرکینِ مکہ بھی جب سخت ابتلاء میں آتے…سمندری لہروں میں گِھر جاتے…کوئی راستہ دکھائی نہ دیتا…
معبودانِ باطل غائب ہو جاتے…بت مدد کو نہ پہنچتے تو اللّٰــــہ واحد کو ہی اخلاص سے پکارتے…
قرآن میں اللّٰه تعالٰی نے اُن کی اس کیفیت کا نقشہ بیان کرنے کے بعد کئی مقامات پر فرمایا کہ جب ہم انہیں اس مصیبت سے نجات دیتے تو ساحلِ سمندر پر پہنچتے ہی پھر شرک و نافرمانی میں مبتلا ہو جاتے…!
ایک قوم کا تذکرہ بھی تو ضرور نظروں سے گزرا ہوا ہو گا…
جسے اللّٰہ تعالٰی نے وہ واحد قوم کہا جنہیں عذاب کی وارننگ دی جا چکی تھی مگر اُن کی بصیرت کی آنکھ کُھل گئی تو سب کے سب گڑگڑاتے ہوئے الٰہ واحد کے دربار میں جھک گئے…توبہ کی سسکیوں کی گونج میں اپنے اوپر آئے عذاب کی گھڑیوں کو ایمان کی دولت سے بدلنے میں کامیاب ہو گئے…
جن کا تذکرہ کرتے ہوئے رب نے فرمایا کسی سابقہ وارننگ زدہ قوم کو اُن کا ایمان لانا فائدہ نہ دے سکا اِلَّا قوم یونس…مگر یونس علیہ السلام کی قوم کو…!!!
ہاں وہ قومِ یونس تھی…!
جس کے پیغمبر نے بھی مچھلی کے پیٹ میں پکارا:
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین¤
توبہ کے طلب گاروں پر تو فرشتوں کا نزول ہوا کرتا ہے…
صحیح بخاری میں ہے سابقہ قوم کے ایک شخص کی مثال دیتے ہوئے رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا کہ:
جب سو آدمیوں کو قتل کرنے والا آدمی توبہ کی غرض سے نکل پڑا تو اُس کی روح راستے میں ہی قبض کر لی گئی
آسمان سے فرشتے اُترے اور اُس کی برائیوں اور گناہوں کی وجہ سے جہنم کا مستحق سمجھنے لگے…اللّٰہ نے زمین کو نیکی کی بستی کی طرف سمٹ جانے کا حکم دیا اور اُس کی روح جنت والے فرشتوں کے سپرد کر دی گئی…
کہ وہ توبہ کی نیت سے قدم اُٹھا چکا تھا…
رب کتنا قدر دان ہے ؟
یہ ہم نے سوچنا ہے کہ آیا ہم سچے دل سے رب کو پکار کر پھر سچے ہی رہے یا وقت گزرنے پر پھر ملاوٹ کرنے پر آ گئے…؟
کیا توبہ کرنے کے بعد پھر خیانتوں کی آمیزش کرنے لگ گئے…؟
جب خلوصِ دل اور سچے عزم کے ساتھ اُس کے در پر جھک جایا جائے تو وہ تو سیئات کو حسنات میں بدل دیا کرتا ہے…کتنا خوب صورت اور احسان بھرا قانون ہے اُس کا کہ:
من تاب و اٰمن و عمل صالحا فاولئک یبدل اللّٰہ سَیِّاٰتھم حسنٰت و کان اللّٰه غفور رحیما¤
(الفرقان)
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے گویا اس کے ذمہ گناہ ہے ہی نہیں…!”
(ابنِ ماجہ_کتاب الزھد)
یہ بات سچ ہے کہ مسلمان قوم آج بھی روحانیت کے مضبوط ترین اور بلند یقین کے درجہ پر فائز ہے…غیر مسلم بھی آج یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کا الٰہ بہت جلد سُن لیتا ہے اور یہی سب سے بڑا سچ اور حقیقت ہے اور ہم نے مل کر اس حقیقت کو دنیا پر آج واضح کرنا ہے…
وہ تو اپنے بندوں کے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کا منتظر ہے…
وہی بہترین مرجع،بہترین کارساز اور سب سے بڑا مہربان ہے…
بس کہیں فرق ہے تو اس تعلق میں…!
سقم ہے تو اس کردار میں…!!
بھول ہے تو راستوں میں…!!!
اور ضرورت ہے،عقائد و اعمال کی اصلاح کے ساتھ اخلاص بھرے رجوع اور ندامت بھری توبہ کی…اُس سے خالص اور گہرے سے تعلق کی…نہ کہ وقتی طور پر اور رسمی…!
پھر اس کی رحمتیں برسیں گی…ہاں یقینًا برسیں گی…اوپر نیچے سے…
آگے پیچھے سے…
اور دائیں بائیں سے گھیراؤ کریں گی…یہ اُس کا سچا وعدہ ہے…!!!
لا ریب ہمارے پلٹنے میں تو دیر اور کوتاہی ہو سکتی ہے…اُس کے راضی ہونے اور بخشش و عطا میں ہر گز نہیں…!!!
آئیں استغفار کریں…تنہا تنہا سہی مگر وہ تو اقرب من حبل الورید ہے…دلوں میں اُٹھنے والے خیالات سے باخبر…پھر اس استغفار سے گناہ بھی دُھلیں گے…رزق بھی وافر ہو گا اور راستے بھی کُھلنے لگیں گے…اور یاد رکھیے کہ اجتماعی طور پر ابتلاء میں اجتماعی کردار ہی لازم ہو جایا کرتا ہے…
ہمیں ہر معاملے میں وہ دین کا ہو یا دنیا کا اس کرپشن بھرے کردار سے خود کو بچانا ہے…
پھر خواص و عوام کی تخصیص نہیں ہوا کرتی اور رب کے حکموں اور لشکروں کے سامنے دنیا بھر کی ٹیکنالوجی اور وسائل بھی کم کم پڑتے دکھائی دینے لگتے ہیں…اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے…رہے نام اللّٰــــہ کا…
کل من علیھا فان¤ویبقٰی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام¤
ہم کمزور و بے بس ہیں اور اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں،فلاح کا راستہ اللّٰــــہ تعالٰی نے ہمیں بتا دیا ہے کہ:
یا ایھا الذین اٰمنو توبو الی اللّٰــــہ توبۃ نصوحا،عسٰی ربکم ان یکفر عنکم سیِّاٰتکم…(التحریم:8).
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو،توبہ کرو اللّٰــــہ کی طرف خالص و سچی توبہ،قریب ہے تمہارا رب تم سے تمہارے گناہوں کو دُور کر دے…!!!آمین.
=================================

Comments are closed.