ترکی ، آیہ صوفیہ کی بطور مسجد بحالی اور شبہات تحریر:سفیر اقبال

ترکی ، آیہ صوفیہ کی بطور مسجد بحالی اور شبہات
سفیر اقبال

#قومِرسولہاشمی

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

اس شعر کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آتی تھی. ایک بار زمانہ طالب علمی میں اپنے ایک استاد محترم سے مسلمانوں اور کافروں کے آپسی معاملات پر بات ہو رہی تھی کہ اگر محمود غزنوی سومنات کا مندر توڑ سکتے ہیں تو ہندو اس کے مقابلے میں بابری مسجد توڑیں گے. اگر ہمارے اسلاف کافروں کو قتل کریں گے، ان کی بہنوں بیٹیوں کو لونڈیاں بنائیں گے تو اسی کو جواز بنا کر ہندو بھی ہمیں اور ہماری بہنوں بیٹیوں کو ماریں گے. لیکن اگر ہم کسی جنگ میں بزور شمشیر فاتح بن گئے تو اسلام کی خوبصورتی پیش کر کے اخلاق کے ذریعے سے انہیں اپنا گرویدا کریں نہ کہ ان کی بیٹیوں کو لونڈیاں بنا کر یا ان کے بت خانے توڑ کر ان کے دلوں میں نفرت پیدا کریں.

اس موقع پر استاد محترم نے یہ شعر پڑھا

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

یعنی اسلامی قوانین کا موازنہ کبھی کافروں کے قانون سے نہیں کرنا. انسانیت ایک الگ مذہب ہے اور اسلام الگ. اسلام کے اپنے قانون ہیں اور خوبصورت ترین قانون ہیں. اسلام سے بڑھ کر اخلاق سکھانے والا کوئی نہیں اور اللہ کے نبی سے بڑھ کر عادل کوئی نہیں. مذہب انسانیت کے قوانین بظاہر بہت خوب صورت ہیں لیکن ناقابل عمل ہیں. اللہ کے نبی نے اگر لونڈیاں رکھنے کی اجازت دی ہے اور بت توڑنے کا حکم دیا تو یہی ہمارے لیے اخلاق ہے نہ کہ ہم بین الاقوامی اخلاقیات کو دیکھ کر ڈرتے رہیں کہ اگر ہم نے ایسا کچھ کیا تو وہ بھی کریں گے.

پھر مزید بابری مسجد کی بات چلی کہ کافر اگر بابری مسجد گرانا چاہتے ہیں تو وہ اپنے مذہب پر سچے ہیں لیکن ہمارا دین اس معاملے میں ان سے جنگ کرنے یا کمزور ہونے کی صورت میں ہجرت کرنے کا حکم دیتا ہے تا کہ ہم مضبوط ہو کر دوبارہ نئے عزم کے ساتھ بابری مسجد کو بزور طاقت چھڑوا سکیں….!

لیکن ہمیں ان اندیشوں کو دماغ میں جگہ دینے کی بالکل ضرورت نہیں کہ اگر ہم نے اپنے ملک میں ان کے بت خانے گرائے( یا انہیں عبادت کے لئے نئے بت خانے نہ بنانے دئیے) تو کل ہماری مسجدیں ان کے ملکوں میں محفوظ نہیں رہیں گی.

مسجد گراؤ مندر بناؤ مہم کے بعد کچھ احباب #آیہ_صوفیہ کی مسجد کی بحالی پر ماتم کناں ہیں کہ ابتدا میں یہ عیسائیوں کی عمارت تھی (جو سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں بنائی گئی بیت المقدس کے مقابلے میں تعمیر گئی تھی) اس لیے اسے مسجد کا درجہ دینا مناسب نہیں. کیونکہ ہمارے اسلاف کافروں کی عبادت گاہیں نہیں توڑتے تو عرض ہے کہ طیب اردگان نے تو اسے میوزیم سے دوبارہ مسجد کا درجہ دیا اور الحمد للہ بہترین کام کیا. اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ پہلے کلیسا تھا تو اس کلیسا کو محمد الفاتح کے دور میں مسجد میں تبدیل کیا گیا تھا( اس لیے اعتراض محمد الفاتح رحمہ اللہ پر بننا چاہیے.) اور اس تبدیلی کی وجہ وہ اللہ کے نبی کی پیشین گوئی ہے جس میں ایک قیصر کے شہر کو فتح کرنے والے لشکر کو جنت کی بشارت دی گئی تھی.

یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے دریائے دجلہ پار کر کے قصر ابیض کو فتح کرنے کے بعد کسری کے تخت کو منبر کے طور پر استعمال کیا تھا اور محمود غزنوی نے ہندو برہمنوں کی منتوں کے باوجود سومنات کا مندر توڑ دیا تھا.

پاکستان میں مسجد کا انہدام ہو یا مندر کی تعمیر… بھارت میں بابری مسجد کا معاملہ ہو یا مسجد اقصی کے گرائے جانے کا ڈر یہاں مذہب ِ انسانیت یا بین الاقوامی قوانین کی بجائے اسلامی قوانین کو مدنظر رکھنا ضروری ہے.
اسلام نے صرف ان عبادت گاہوں کو گرانے سے منع کیا جس کے راہب اسلام کے خلاف سازشیں نہیں کرتے اور صرف اپنی عبادت میں مصروف رہتے ہیں. لیکن اگر کسی بت خانہ یا کلیسا میں صبح سے لیکر شام تک مسلسل اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشیں ہوتی ہوں تو اس کو گرا دینا یا اسے مسجد میں تبدیل کر دینا اسلام کے ضابطہ اخلاق میں شامل ہے. واللہ اعلم بالصواب

Comments are closed.