یوکرائن پر کون قابض ہوگا ۔۔۔مشرق یا مغرب؟ تحریر: نوید شیخ

0
43

یوکرائن پر کون قابض ہوگا ۔۔۔مشرق یا مغرب؟ تحریر: نوید شیخ
ہم اپنے اندرونی مسائل مہنگائی ، بے روزگاری ، آئی ایم ایف ، اسٹیٹ بینک اور نواز شریف کی بیماری میں اتنا پھنسے ہوئے ہیں کہ ہم کو اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے پڑوس میں ایک نئی جنگ کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں ۔ اور اس جنگ کے اثرات پاکستان سمیت پوری دنیا میں پھیلنے والے ہیں اس تنازعہ کا نام ہے ۔۔۔ یوکرائن پر کون قابض ہوگا ۔۔۔مشرق یا مغرب ؟؟؟
اس سلسلے میں بھی دنیا دو حصوں میں بٹی دیکھائی دے رہی ہے ۔ ایک جانب مغرب ہے تو دوسری طرف مشرق ۔ ابھی تو ہر کوئی یہ خدشہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ جنگ ٹلتی نہیں دیکھائی دے رہی ہے اور ساتھ ہی یہ جنگ چھڑ گئی تو معاملہ مزید آگے ہی بڑھے گا ۔ کیونکہ یوکرائن کے معاملے پر دو بڑے پہلوان امریکہ اور روس زور آزمائی کررہے ہیں ۔

۔ خود امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی فوجی کارروائی ہوسکتی ہے، جس سے دنیا کا نقشہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ جبکہ روس کے صدر پوتن کا دعویٰ ہے کہ مغربی طاقتیں یوکرائن کو روس کو گھیرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ نیٹو مشرقی یورپ میں اپنی فوجی سرگرمیاں بند کر دے۔ وہ ایک طویل عرصے سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ امریکہ نے 1990 میں دی گئی اپنی اس ضمانت کو ختم کر دیا، جس کے مطابق نیٹو اتحاد مشرق میں نہیں پھیلے گا۔ دراصل یہ پھڈا شروع ہی یوکرائن میں امریکی میزائلوں کی تنصیب سے ہوا ہے ۔۔۔ اب جب امریکہ روس کی ناک کے نیچے اسکی سرحد ساتھ اپنا جدید اسلحہ لگائے گا تو روس بھی جواب دے گا ۔ اور اسی جواب میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرائن کی سرحدوں پر تقریباً ایک لاکھ کے قریب فوج اکھٹی کردی ہے۔ اس حوالے سے امریکی جنرل مارک میلی کا کہنا ہے کہ اگر یوکرائن پر روس کا حملہ ہوگیا تو اس سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی۔ انھوں نے حالیہ روسی فوجیوں کی موجودگی کو بھی سرد جنگ کے بعد سب سے بڑی فوجی تعیناتی قرار دیا ہے۔

۔ جنگ کی تیاری میں ہی امریکہ نے اب تک تین سو کے قریب Juvenile missile اور بنکر نیست و نابود کرنے والے انتہائی مہلک بم یوکرائن پہنچادیے ہیں۔ جنگ کی صورت میں روس سے گیس کی ترسیل بند ہونے کی صورت میں یورپی ممالک متبادل ذرائع تلاش کر رہے ہیں۔ امریکہ اگلے چند روز میں 8,500فوجی یوکرائن یا اس کے آس پاس متعین کر رہا ہے اور یورپ میں موجود 64,000 سپاہیوں کو تیاررہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ۔ اسی لیے روس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے Moldova اور Crimea میں بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں کی ہیں ۔ اس کے علاوہ بحیرہ عرب میں چین کے اشتراک کے ساتھ بحری مشقیں بھی کی ہیں ۔ روس اپنے میزائلوں کو بھی حالت تیاری میں رکھے ہوئے ہے اور یوکرائن کی سرحد پر
60جنگی جہاز اور بمبار تیاری کی انتہائی حالت میں ہیں۔۔ ابھی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے مشرقی یورپ میں ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کا حکم دے دیا ہے ۔ دوسری جانب روس بھی پیشقدمی کرنے لگا ہے ۔ ۔ وال اسٹریٹ جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی فوجی پولینڈ اور جرمنی میں تعینات کیے جائیں گے جب کہ ایک ہزار کے قریب فوجیوں کو جرمنی سے رومانیہ منتقل کیا جائے گی اور یہ فیصلہ امریکی صدر جوبائیڈن نے وزیر دفاع اور امریکی فوج کے اعلیٰ حکام کے ساتھ اہم میٹنگ کے بعد کیا ہے ۔۔ اس حوالے سے پینٹاگون کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ تعینات کیے جانے والے فوجیوں کی اہم اور خطرناک مشن کو پورا کرنے کے لیے خصوصی تربیت دی گئی ہے جو جدید اسلحے اور ضروری ساز و سامان سے لیس ہیں۔۔ پھر روس کے حملے کے پیش نظر صرف امریکا ہی نہیں برطانیہ نے بھی یوکرائن کو فوجی مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جبکہ اس حوالے سے نیٹو افواج کو پہلے ہی سرحدوں پر تعینات کیا جا چکا ہے۔

۔ اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر جاری مذاکرات کے باوجود روس اور امریکا اب تک اس کشیدگی کو کم کرنے کے طریقے کے حوالے سے کسی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ ۔ اگرچہ ماسکو کا دعویٰ ہے کہ اس کا یوکرائن پر حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، تاہم اس نے یہ بھی مطالبہ کر رکھا ہے کہ نیٹو پہلے یہ وعدہ کرے کہ وہ کبھی بھی اپنے اتحاد میں Kiev
کٓو رکنیت کی اجازت نہیں دے گا۔ روس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ نیٹو اتحاد مشرقی یورپ سے اپنی افواج کو واپس بلائے اور روس کی سرحدوں کے قریب ہتھیاروں کی تعیناتی اور فوجی سرگرمیوں کو ختم کرے۔ ۔ دوسری جانب وائٹ ہاؤس اور نیٹو دونوں نے ہی روس کے مطالبات کو ناممکن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ امریکا نے دھمکی دی ہے کہ اگر ماسکو نے سرحد پر اپنی فوجی کارروائی جاری رکھی تو اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔۔ دراصل یہ سارا مسئلہ شروع ہی تب ہوا جب امریکی قیادت میں نیٹو اتحاد نے یوکرائن کی ممبر شپ کی درخواست کو منظور کر لیا۔ یوکرائن ابھی تک نیٹو کا شراکت دار ملک ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرائن کو مستقبل میں کسی بھی وقت اس اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔ روس مغربی طاقتوں سے اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ لیکن مغرب اس کے لیے تیار نہیں ہے ۔

۔ امریکی وزیر خارجہ Anthony Blanken اور ان کے روسی ہم منصب Sergei Lavrov کے درمیان جنوری کے اوائل میں اس معاملے پر بات چیت ہوئی تھی، تاہم ان سفارتی کوششوں کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ ۔ صدر جو بائیڈن اور ولادیمیر پوٹن کے درمیان بھی ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی تھی تاہم اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔۔ اب برطانوی وزیر اعظم Boris Johnson بھی یوکرائن کے صدر Vladimir Zelensky سے بات کرنے کے لیے Kievپہنچے ہیں تاکہ کشیدگی کو کسی طرح کم کیا جا سکے۔۔ اس حوالے سے یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یوکرائن ہمارا ہمسایہ اور ساجھے دار ہے۔ اس کی سلامتی ہماری بھی سلامتی ہے۔ تو ترکی کے صدر ایردوگان نے کہا ہے کہ میری خواہش ہے کہ روس یوکرائن پر حملے یا قبضے کا راستہ اختیار نہ کرے۔ اگر روس اور یوکرائن کے صدور چاہیں تو ہم انہیں اپنے ملک میں مذاکراتی میز پر لا کر بحالی امن کے لئے راستہ کھول سکتے ہیں۔ ۔ پھر یوکرائن کے اس مسئلے کو بھارت میں خاصی تشویش کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ کیونکہ 1962 میں جب بڑی طاقتیں کیوبا میں روسی میزائل کے معاملے کو سلجھانے میں مصروف تھیں تو اس کا فائدہ اٹھاکر چین نے بھارت پر فوج کشی کرکے اس سے 43,000مربع کلومیٹر کا علاقہ ہتھیا لیاتھا۔ تاریخ شاید ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے۔ کیونکہ 2020ء سے 60 سال کے بعد چینی اور بھارتی افواج ایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور بڑی طاقتیں یوکرائن میں برسر پیکار ہیں۔ کل تو راہول گاندھی نے بھی اس حوالے سے خوب چینخ وپکار کی ہے ۔ اور مودی کو خوب کوسا بھی ہے ۔ ۔ یوکرائن کے تنازعہ کی وجہ سے امریکہ فی الحال چین کو قابو میں رکھنے کی اپنی ایشیا پیسفک پالیسی بھی بھول چکا ہے اور اس خطے میں اس نے اپنے اتحادیوں کو بڑی حد تک اب چین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ چین بھی 1962ء کے مقابلے اب خودہی ایک فوجی اور اقتصادی طاقت ہے۔ جو بڑی حد تک امریکہ کے ہم پلہ ہے اور روس اسکے ایک اتحادی کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اسی لیے بھارت اپنے آپ کو مزید تنہا محسوس کر رہا ہے ۔

۔ پھر یوکرائن والے معاملے کو لے کر سلامتی کونسل میں بھی بہت شور شرابہ ہوا ہے ۔ بلکہ اس کاروائی کو رپورٹ کرنے والوں کا کہنا تھا کہ منظر بالکل ایسا تھا جیسے ہماری پارلیمان کے اجلاس کا ہوتا ہے ۔۔ اب اس اجلاس میں جہاں واشنگٹن نے کہا کہ روسی فوج کی تعیناتی بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ تو روس کے ترجمان نے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کو PR Stunt قرار دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس پر Hysteria پیدا کرنے کا الزام عائد کیا۔۔ پھر امریکا نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ روس آنے والے ہفتوں میں بیلاروس میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھا کر 30,000 کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تاکہ وہ یوکرائن کی سرحد کے قریب منتقل ہونے والے اپنے ایک لاکھ فوجیوں میں مزید اضافہ کر سکے۔ تاہم بیلاروس کے نمائندے نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ اسے یوکرائن پر روسی حملے کے لیے
staging ground کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ روس اس معاملے پر کھلے اجلاس کے مطالبے کی مخالفت کر رہا تھا۔ اس کے باوجود امریکا سلامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 10 کو عوامی اجلاس کی حمایت کرنے پر راضی کر سکا۔ لیکن سلامتی کونسل کی طرف سے اس معاملے میں کسی بھی رسمی کارروائی کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف جہاں روس کو ویٹو پاور حاصل ہے وہیں چین سمیت سلامتی کونسل کے دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ جنہوں نے اس مسئلے پر کھلی میٹنگ کو روکنے کی ماسکو کی کوششوں کی حمایت بھی کی ہے۔۔ اقوام متحدہ میں بیجنگ کے ایلچی Zhang Jun نے کہا۔ واقعی یہی مناسب وقت ہے کہ خاموش سفارت کاری کا مطالبہ کیا جائے۔

۔ یوں سلامتی کونسل کے اس دو گھنٹے سے زائد وقت کے اجلاس میں خوب گرما گرمی رہی ۔ ماسکو کی نمائندہ Vasily Nebenzia نے الزام لگایا کہ امریکا Kiev میں خالصتاً نازیوں کو اقتدار میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تو اس پر امریکی سفیر Linda Thomas Greenfield نے جواباً کہا کہ یوکرائن کی سرحدوں پر روس کی جانب سے ایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت یورپ میں گزشتہ کئی دہائیوں میں سب سے بڑی فوجی نقل و حرکت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ روس کی جانب سے سائبر حملوں اور غلط معلومات پھیلانے میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ وہ بغیر کسی حقیقت کے ہی یوکرائن اور مغربی ممالک کو حملہ آور کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ حملے کا بہانہ بنایا جا سکے۔ اس کے جواب میں روسی سفیر نے مغرب پر منافقت کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ہمارے مغربی ساتھی کشیدگی میں کمی کی ضرورت کی بات کر رہے ہیں۔ تاہم، سب سے پہلے، وہ خود ہی کشیدگی اور بیان بازی کو ہوا دے رہے ہیں اور اشتعال انگیزی پھیلا رہے ہیں۔ تھوڑا پیچھے جائیں تویوکرائن 1991تک سوویت یونین کا حصہ تھا۔ یوکرائن میں رہنے والے روسی باشندوں کی ایک بڑی آبادی ہے ان کے روس سے قریبی سماجی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ یوں روس یوکرائن کو اپنے قریبی علاقے کے طور پر دیکھتا ہے۔ روس کا خیال ہے کہ نیٹو اتحادی ہونے کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی مزید اسلحہ اسکی سرحد کے پاس اکٹھا کریں گے۔ دیکھا جائے تو افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکہ روس کو اور چین کو قابو میں کرنے کیلئے ایشیاء بحرالکاہل کے خطے سمیت بلقان ملکوں کے علاوہ وسط ایشیاء میں بھی پیر جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جس پر روس اور چین ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ اس سلسلے میں یہ دونوں امریکی اتحادیوں کو سبق بھی سیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی لیے روس نے یوکرائن سمیت یورپ اور چین نے بھارت سمیت تائیوان کو خوب ٹائٹ کیا ہوا ہے

Leave a reply