یوکرین روس تنازعہ:دنیا ایٹمی جنگ کے دھانے پر:کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے
لاہور:یوکرین روس تنازعہ:دنیا ایٹمی جنگ کے دھانے پر:کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے،اطلاعات ہیں کہ زاپوریژیا ایٹمی پاور پلانٹ جو کہ یورپ کا سب سے بڑا جوہری بجلی گھر ہے ۔ یوکرین کا یہ جوہری بجلی گھر روسی افواج کے کنٹرول میں ہے۔اور یہ بات امریکہ اوریورپ کو کسی بھی صورت گوارا نہیں ہے ،
ایٹمی بجلی گھر پر یوکرین کی گولہ باری کا نتیجہ خوفناک ثابت ہوسکتا ہے: روس
اس سلسلے میں عالمی ذرائع ابلاغ نے پیر کی رات یوکرینی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی کہ زاپوریژیا ایٹمی بجلی گھر کے نزدیک متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں ۔ زاپوریژیا ایٹمی بجلی گھر کے اطراف کے علاقوں پر گزشتہ دنوں کئی بار گولہ باری ہوئی ہے۔
ماسکو اور کیف میں سے کسی نے بھی ان گولہ باریوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔شہر انرگودار کے میئر نے جہاں یورپ کا یہ سب سے بڑا جوہری بجلی گھر واقع ہے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ اس جوہری بجلی گھر میں المیہ رونما ہونے کا امکان روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔
روس نےایرانی سیٹلائٹ "خیام” خلا میں بھیج دیا
یوکرین کے زاپوریژیا جوہری بجلی گھر میں المیہ رونما ہونے کی تشویش کے دوران، پیر کو روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے ماہرین یوکرین کے زاپوریژیا ایٹمی بجلی گھر کا جلد سےجلد معائنہ کریں اور ماسکو اس سلسلے میں ہر ضروری تعاون کے لئے تیار ہے ۔
روسی وزارت خارجہ کے اس بیان کے بعد ، اقوام متحدہ نے یوکرین کے اس جوہری بجلی گھر کے تعلق سے آئی اے ای اے کی سنگین ذمہ داریوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔اسی کے ساتھ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوترش نے مذکورہ جوہری بجلی گھر کی سلامتی کے بارے میں روس کے وزیر دفاع سرگئی شویگوف کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کیا ۔
روس، یوکرین اوراس کے حامی مغربی ملکوں پر یہ الزام لگاچکا ہے کہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ زاپوریژیا ایٹمی بجلی گھر میں بھی چرنوبیل جیسا المیہ رونما ہوجائے۔
یاد رہے کہ روس نے یوکرین سے علیحدگی اور خود مختاری کا اعلان کرنے والے، علاقوں دونیسک اور لوہانسک کی حمایت میں چوبیس فروری سے فوجی آپریشن شروع کررکھا ہے ۔ روس نے کہا ہے کہ یوکرین کے خلاف اس کا فوجی آپریشن آغاز جنگ کے مترادف نہیں ہے بلکہ عالمی سطح کی جنگ روکنے کا ایک اقدام ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے یوکرین کے خلاف فوجی آپریشن کا مقصد ، نیونازی انتہا پسندوں کا خاتمہ اور روسی زبان بولنے والے شہریوں کو نسل کشی سے بچانا بتایا ہے۔یوکرین جنگ شروع ہونے سے قبل روس نے مغربی ملکوں کو بارہا خبردار کیا تھا کہ کیف کو مسلح کرنے، مشرقی یوکرین میں آباد روسی زبان شہریوں پر یوکرینی فوج کے حملوں اور انسانی حقوق کی پامالی کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
قابل ذکرہے کہ مشرقی یوکرین کے دو علاقوں ، دونیسک اور لوہانسک نے، دو ہزار چودہ میں اس وقت کی حکومت کے خلاف مغرب نوازوں کی بغاوت اور حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد، یوکرین سے علیحدگی اور خود مختاری کا اعلان کیا تھا۔
ایران، روس کو ڈرون استعمال کرنے کی تربیت دے رہا ہے،امریکا
2014 میں بلوے اور بغاوت کے ذریعے وکٹر یانوکویچ کی حکومت کا تختہ الٹ کر یوکرین میں برسراقتدار آنے والی مغرب نواز حکومت نے روس کی تشویش اور انتباہات کو نظرانداز کرتے ہوئے، یورپ اور امریکا سے قریب تر ہونے اور یورپی یونین اور نیٹو میں شمولیت کے لئے کوششیں جاری رکھیں اور اسی کے ساتھ یورپ اور امریکا نے بھی روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی غرض سے یوکرین کے لئے اسلحہ جاتی اور فوجی امداد کا سلسلہ تیز کردیا۔
دوسری طرف نیٹو نے بھی یوکرینی فوجیوں کو ٹریننگ دینے اور یوکرین کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں انجام دینے جیسے اشتعال انگیز اقدامات انجام دیئے جو یوکرین اور روس کے درمیان موجودہ جنگ پر منتج ہوئے ۔ ساڑھے پانچ مہینے سے یہ جنگ جاری ہے اور اب اس جنگ کے نتیجے میں جوہری جنگ کے خطرات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔