پے در پے اہل حدیث علماء کی وفیات اور کرونا سے متعلق ہماری غفلت ، تحریر طہ منیب

0
30

پے در پے اہلحدیث علماء کی وفات کسی سانحے سے کم نہیں، اس پر جسقدر افسوس کیا جائے کم ہے، جہاں ان علماء کی وفیات غم کا باعث ہیں وہیں کرونا کے حوالے سے ہماری غفلت کی بھی عکاس ہیں، پہلے دن سے کرونا سے متعلق صرف چند ایک کو چھوڑ کر بالعموم علماء کا موقف انتہائی نامناسب تھا، ہر مسئلہ میں اسلام کے خلاف کافروں اور یہودیوں کی سازش کو لائے بغیر ہماری بات میں وزن نہیں پڑتا، تقریباً سب علماء کی وفات سے قبل صورتحال وہی تھی جو کرونا کے متاثرین کی ہوتی ہے، یعنی سب ہی کھانسی اور سانس کی تکلیف کے باعث ہی خالق حقیقی سے جا ملے،

رمضان المبارک سے قبل اس کا پھیلاؤ محدود سرکل میں تھا لیکن بعد میں یہ کسی خاص حلقے، کمیونٹی سے نکل کر عوامی ہو چکا تھا، رمضان المبارک کے شروع میں گوجرانولہ میں ہزاروی صاحب کے جنازے کے مناظر انتہائی تنگ جگہ پر بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے جنازے میں شریک عوام اور علماء کی اکثریت اہل حدیث حلقوں میں کرونا کے پھیلاؤ کا سبب بنی اور بعد میں ہونیوالے جنازوں کے مناظر بھی پہلے جنازے سے مختلف نہیں تھے،

حافظ ابن حجر کی وباؤں سے متعلق کتاب کی پوسٹ ایک بار پہلے بھی کی آج بھی تزکرہ کردیتا ہوں کہ جب بغداد میں وبا سے بچنے کیلئے اجتماعی دعا کا اہتمام کیا گیا اس کے بعد اموات کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی، اب اگر ان بزرگوں کے کرونا ٹیسٹس نہیں ہوئے تو اس بنیاد پر یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں کرونا نہیں تھا اور اس پر چشم پوشی خدانخواستہ باقیماندہ علماء کے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ جوانوں کے برعکس بزرگوں کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے ، جو پہلے سے کسی معمولی عارضے کا شکار ہوں انکے کیلئے کرونا کا معمولی وار جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔ کرونا ایک حقیقت ہے، اس سے متعلقہ زبان زد عام سازشی تھیوریاں ممکن ہے کسی حد تک درست ہوں لیکن اس وبا کا جان لیوا ہونا سو فیصد درست اور ثابت ہے، اب بھی وقت ہے، ضد چھوڑ ہم اس وبا سے متعلق بتائی گئی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Leave a reply