امید اور یقین —- ریاض علی خٹک

بنی اسرائیل کی روایات میں آتا ہے نوجوان داود علیہ السلام نے جب جالوت کے مظالم اور خوف کے بارے میں سنا تو اپنے بھائی سے پوچھا تم لوگ اس کے خلاف کھڑے کیوں نہیں ہوتے.؟ ان کے بھائی نے کہا کیا تم نہیں دیکھتے وہ کتنا بڑا دیو ہے. کتنا لمبا چوڑا ہے. کیا اس کو مارا جا سکتا ہے.؟ داود نے کہا ہاں میں دیکھ رہا ہوں اسے جس طرف سے بھی نشانہ لگاو یہ بچ ہی نہیں سکتا.

اور انہوں نے اسے اپنی غلیل سے مار دیا تھا. بڑی چیزوں کا یہی مسئلہ ہوتا ہے. کوئی نشانہ خطا ہی نہیں ہوتا. جیسے بڑے بڑے پہاڑ ہوں. ایک چیلنج کی طرح ناقابل عبور لگتے ہیں. لیکن ان کے چھوٹے چھوٹے درے ان کی بلندی کے راستے بن جاتے ہیں. ایک چھوٹی سی سرنگ لمحوں میں اسے پار کرا دیتی ہے اور پہاڑ دیکھتا رے جاتا ہے.

بڑی بڑی چوٹیاں جیسے کے ٹو ماونٹ ایورسٹ ہم نے چار پانچ پڑاو میں تقسیم کر کے نہ صرف سر کر لیں بلکہ سر کرتے چلے جا رہے ہیں. ہم دوسروں میں شیشے کی طرح خود کو دیکھتے ہیں. دوسرے بھی ہم میں خود کو شیشے میں دیکھتے ہیں. لیکن جب آپ اپنی ذات کے سچ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں تو یہ شیشے ختم ہو جاتے ہیں.

داود کے بھائی کو جالوت میں ڈرا سہما ہوا اپنا آپ نظر آرہا تھا. جالوت کو دوسروں میں اپنا دیو قامت قد اور رعب و دبدبہ نظر آرہا تھا. لیکن داود علیہ السلام کو ایک ایسا دیو ہیکل جسم جسے جس طرف سے بھی مارو نشانہ خطا ہو ہی نہیں سکتا. اس لئے بڑے خواب بڑے چیلنج دیکھنے والے بھلے ان چوٹیوں کو سر نہ بھی کریں وہ کسی نہ کسی پڑاو پر سر کرنے کی امید اور یقین ضرور رکھتے ہیں.

Comments are closed.