امت وسطہ شکستہ کیوں؟؟؟
تحریر :سفیر اقبال
یہ وہ وقت ہے جب ہاتھ ملنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا….
امت مسلمہ کی تاریخ شاہد ہے کہ جو اصل دشمن ہے وہ ہمیشہ دوست بن کر آیا… آستین کا سانپ بن کر آپ کی صفوں میں شامل ہوا ….آپ کا بھروسہ جیتا اور آپ کے دشمنوں کے لیے آپ کے قلعوں کے دروازے اندر سے کھول کر آپ کو زخمِ کاری دے گیا. اور زخم بھی ایسا کہ جس کی ٹیس صدیوں تک محسوس ہو….!
اگر کوئی ایک دو واقعات و حادثات ہوں تو بندہ کہے شاید کوئی نسلی تعصب ہو یا انفرادی و ذاتی غصہ جس کا بدلہ پورے مسلم لشکر سے یا پوری مسلم ریاست سے لیا گیا… لیکن مقام ِحیرت کہ ایک دو واقعات نہیں پوری تاریخ ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی شکست ہوئی اس کی کڑیاں کہیں نہ کہیں ان "سانپوں ” کے زہر سے جڑتی نظر آتی ہیں. مسلمانوں کے قلعے دشمن کے استقبال کے لئے ہمیشہ اندر سے کھولے گئے وہ بھی ان غداروں کے ہاتھوں سے.
.
اب پروبلم ہمیشہ یہ رہی کہ جو دوست بن کر آتا ہے اسے کبھی دشمن نہیں کہا جا سکتا… اسے آج تک پوری امت مسلمہ( بذریعہ اجماعِ امت) کافر نہیں کہہ سکی کیونکہ وہ اپنی "پیدائش” سے اب تک خود کو مسلمان کہتے آ رہے ہیں. اور اپنا جان و مال محفوظ کروا چکے ہیں. لیکن صحابہ کرام کی تاریخ سے لیکر آج تک کوئی ایسا موقع چھوڑتے بھی نہیں کہ جس کے ذریعے ایسی چوٹ اور ایسا زخم امت مسلمہ کو لگے کہ جو بھلایا نہ جا سکے.
وہ ہماری پارلیمنٹ، ہمارے شہر، ہمارے محلے حتی کہ ہماری فرینڈ لسٹ میں موجود ہیں لیکن ہم انہیں اپنے آپ سے علیحدہ نہیں کر سکتے (قادیانیوں تک کو امت مسلمہ سے علیحدہ کرنے اور انہیں جڑ سے اکھاڑنے جیسا کام سوچنا بہت آسان ہے کرنا مشکل! اور یہ لوگ تو اور زیادہ شدت کے ساتھ ہمارے درمیان سرایت کر چکے ہیں ). کسی کو ابھی بھی شک ہو تو اپنی فرینڈ لسٹ میں موجود ایسے معروف ایکٹیویسٹس کی والز چیک کر لیں جو سالہا سال تک پاکستان کے دفاع کے لئے اپنے قلم کا زور لگاتے رہے لیکن آج ان کی نظر میں ریاست، آرمی، ادارے…. کسی کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں.
ان کے ساتھ جنگ دو بدو دشمن والی نہیں بلکہ آستین میں پلنے والے یا جڑوں میں بیٹھے ہوئے سانپ کی ہے جس پر نظر رکھی جاتی ہے اور جب وہ شرارت کرتا ہے تب اسے کچلا جاتا ہے. لیکن اگر آپ پہلے اس پر کوئی وار یا کوئی فتویٰ لگاتے ہیں تو وہ کسی کام کا نہیں. کیونکہ وہ تو آپ کی جڑوں میں خموشی سے چھپ کر "معصوم” بن کر بیٹھا ہوا ہے. یہ دشمن جب آپ کی رینج میں ہوتا ہے تب اپ کا دوست ہوتا ہے اور زخم صرف اور صرف اسی صورت میں… اور تب لگاتا ہے جب اس کو یقین ہوتا ہے کہ میں وار کر کے نکل جاؤں گا اور یہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے….! اگر میں اس کے اس روئیے میں کوئی مبالغہ کرتا نظر ا رہا ہوں تو بیشک تاریخ اٹھا کر خود دیکھ لیں.
کبھی کبھی تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے چشم تصور سے سلطان ٹیپو کی شکست کو دیکھتا ہوں تو نہایت کرب اور حسرت سے سوچتا ہوں کتنا اچھا ہوتا سلطان ٹیپو ان غداروں کو پہلے ہی اپنی صفوں سے نکال لیتے. اور پھر اچانک مجھے پاکستان اور پاکستان کی پارلیمنٹ کا خیال آتا ہے اور وہ حسرت دعا بن جاتی ہے کہ یا اللہ جو کچھ ہوا سو ہوا لیکن اب دوبارہ ہمارے قلعوں کے اندرونی دروازوں کی چابیاں ہمارے غداروں کے ہاتھوں میں مت دینا.
اللہ تعالیٰ برباد کرے ان تمام لوگوں کو جو ازل سے لیکر آج تک دوہرا رویہ اپناتے ہوئے امت مسلمہ کے درمیان رہ کر اپنی "مسلمانیت” کا فائدہ اٹھاتے رہے اور بعد میں جب موقع دیکھا تو اسی امت کو ایک شدید نقصان سے دو چار کر گئے. آج بھی جن جن لوگوں نے خلیفۃ المسلمین امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کی قبر مبارک کو اکھیڑا اور ان کے جسد مبارک کو بھی نہ چھوڑا … اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کے سہولت کاروں کو کبھی قبر میں سکون نہ دے اور دنیا و آخرت میں رسوا کرے. آمین ثم آمین







