اردو کے ادیب اور مزاح نگار محمد خالد اختر کو دنیا سے بچھڑے 18 سال بیت گئے

0
57

اردو کے نامور ادیب اور مزاح نگار مرحوم محمد خالد اختر کو جہان فانی سے رخصت ہوئے 18برس بیت گئے

محمد خالد اختر 23 جنوری 1920 کو بہاولپور میں پیدا ہوئے خالد اختر نے ابتدائی تعلیم صادق پبلک اسکول بہاولپور سے حاصل کی جہاں شفیق الرحمان بھی ان کے ہم مکتب تھے ان کے والد مولوی اختر علی بہاولپور سے ممبر لیجسلیٹو اسمبلی رہ چکے تھے

کراچی کے پسماندہ علاقے لیاری کی ایک پسماندہ بستی چاکیواڑہ قیام پاکستان کے فوری بعد کےچند برسوں میں یہ بستی اردو کے ایک نوجوان ادیب کا مسکن تھی جس نے ایک ایسا ناول لکھا جس سے غریب بلوچوں کی اس بستی کا نام تاریخ میں امر ہوگیا یہ نوجوان آگے چل کر اردو کا اعلی پائے کا صاحب طرز مزاح نگار، مترجم اور سفرنامہ نگار بنا جسے اردو ادب کی تاریخ محمد خالد اختر کے نام سے جانا جاتا ہے محمد خالد اختر کی تحریروں میں وہی فراخ دلی اور درویشی نظر آتی ہے جو خود ان کی طبیعت کا خاصہ تھی

انہوں نے ساری زندگی نہایت سادگی سے گزاری ان کا رہن سہن انتہائی سادہ درویشانہ تھا گھر میں ان کا اپنا کمرہ ان کی ذاتی سادگی کا منہ بولتا ثبوت تھا ادیب تو وہ تھے ہی لیکن مطالعے کا جیسا عشق ان کو تھا وہ بڑے بڑے ادیبوں میں بھی نہیں ملتا محمد خالد اختر کوئی روایتی ادیب نہیں تھے انہوں نے لکھنے کے لیے کئی اصناف منتخب کیں مزاح ہو یا سفرنامہ، پیروڈی ہو یا ترجمہ، انہوں نے ہر صنف میں منفرد کام کیا

محمد خالد اختر 2 فروری 2002 کو دنیا سے رخصت ہوگئے اور وقت ایک دن چاکیواڑہ کو بھی تبدیل کر دے گا لیکن محمد خالد اختر کی تحریریں انہیں اور ان کے چاکیواڑہ کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی

ان کی لکھی ہوئی تصانیف میں چاکی واڑہ میں وصال کھویا ہوا افق خطوط چچا عبدالباقی اور ایک جنرل کی پر اسرار سرگزشت وغیرہ شامل ہیں

Leave a reply