ووٹر کو عزت دو تحریر:سیدہ ام حبیبہ
قارئین محترم الیکشن کی گرما گرمی میں جہاں عوامی نمائندے دھن کی بازی لگا رہے ہوتے ہیں
وہیں انکے ووٹر تن من کی بازی لگاتے نظر آتے ہیں.
الیکشن کے دنوں میں کیمپئنز کے نام پہ ہر جائز و ناجائز کر کے صرف اپنی پارٹی کے لیے ووٹ بٹورے جاتے ہیں.
اس دوران نمائندے ایسے ایسے دعوے ایسے ایسے وعدے ایسی خوش خبریاں دیتے ہیں کہ مبادہ. انکی جیت کے بعد آسمان سے من و سلوی اترا کرے گا اور عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا.
گاڑیوں اور دفتروں میں بیٹھے نمائندوں کے مزید نمائندے گلی گلی مزید نمائندے جمع کرتے ہیں پیسا لگائیں یا برادری کا حوالہ دیں بہر صورت ہر پارٹی کے پاس مطلوبہ ہجوم جمع ہو ہی جاتا ہے.
جو اس وقت اس نمائندے کے لیے سر کاٹنے کٹوانے کے لیے آمادہ ہوتا ہے.اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر الیکشن کے دوران لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت ہوتی ہے.
الیکشن کے دوران کے سارے ایکشن اگر یہ سیاستدان یاد رکھیں تو ان جیالوں شیروں اور ٹائگروں کے احسان مند رہتے ہوئے انکے لیے انکی ترقی کے لیے دل و جان سے کام کریں.
مگر الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی یہ عوامی نمائندے یوں غائب ہوتے جیسے گدھے کے سر سے سینگ.
وہ ووٹر جو سوشل میڈیا سے لے کے محلوں تک ان نمائندوں اور پارٹی کے لیے ذاتی دشمنیاں تک مول لے لیتے ہیں جیت کر بھی پسپا نظر آتے ہیں.
وہی سیاسی نمائندے جو دس سال قبل وفات پانے والی دادی کی بھی فاتحہ خوانی کرنے آجاتے ووٹ کے لیے وہ ووٹر کے لیے اے سی گاڑی سے باہر نہیں نکلتے.
جو یونین کونسلز سے باپ دادا تک کے پتے جاننے کے بعد ڈور ٹو ڈور جاتے اور گھر جیسی واقفیت کا احساس دلاتے ہیں
جیتنے کے بعد انکے دروازے کے باہر وہی ووٹر خود سوزی کر لے تو بھی دروازے نہیں کھلتے.
وعدے اور دعوے تو جیت کے جشن کے دوران ہی ہوا ہو جاتے اور ووٹرز کے علاقوں کے مسائل جوں کے توں رہتے.
ایک کام ہمارے سیاسی نمائندے بہت عمدہ کرتے ہیں.الیکشنز سے چند ماہ قبل سڑکیں یا نالیاں پختہ کروا دیتے اور وہ بھی اتنی پختہ کہ اگلے الیکشن سے پہلے پھر ٹوٹ چکی ہوں تاکہ ووٹ کے لیے دوبارہ بنوائی جا سکیں.
بریانی کی پلیٹوں پہ جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑنے والے ووٹرز کا ایک مسئلہ بھوک ہے جسکو یہ سیاستدان بخوبی جانتے ہیں.
دانہ ڈالتے جاتے بھوکا مرغ دانہ چننے کے لیے پیچھے پیچھے رہتا اور یہ اس دوران اس مرغ کے پر نوچتے جاتے دانہ ڈالتے جاتے ہیں.
اپنی زندگی میں آج تک ترقیاتی کاموں کے نام پہ صرف گلیاں نالیاں سڑکیں بنتی دیکھی ہیں.ہر سڑک اگلے الیکشن تک پھر ٹوٹ چکی ہوتی.
یہ اس لیے ہوتا ہے کہ سیاستدان عوام کو مہرہ سمجھتے آنے لیے عوام یہ ووٹر صرف طاقت کے حصول کا ذریعہ ہیں طاقت کا مرکز نہیں.
وہ ووٹر جو ووٹ کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں وہی دراصل اپنی طاقت اپنے ہاتھوں بے حس لوگوں کو دے رہے ہوتے.
ان تمام سیاست دانوں سے ایک مطالبہ ہے ووٹ کو نہیں ووٹر کو عزت دو ہجوم سازی تم نے بہت کر لی دھڑے بازی بھی بہت ہو گئی اب قوم سازی کر لیں.قوم بنے گی تو ملک سنورے گا.
ورنہ انکی نوراں کشتی میں قرض کے عوض اپنی خودی گروی رکھنا پڑ جائے گی.
ووٹر آپ کا حاکم ہے آپ خادم ہیں.
ووٹر کا احسان ہے کہ اس نے آپ کو چنا ہے .
اسکو عزت دیں.
@hsbuddy18