وزیرستان، تاریخ کے جھروکوں میں ۔۔۔ زین خٹک

سر زمین وزیرستان کی بدقسمتی کہیے کہ یہ خطہ گذشتہ صدی سے میدان جنگ بنا ہوا ہے ۔1884 میں تخت برطانیہ کے قبضے میں آنے کے بعد جرمن حکومت نے مقامی لوگوں کی مدد شروع کی۔ اور تخت برطانیہ کے خلاف تحریک مجاہدین کی بنیاد رکھی ۔ پروپیگنڈہ کرنے کے لیے یہاں ریڈیو اسٹیشن قائم کیے گئے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی وزیرستان میدان جنگ بنا رہا۔ مقامی لوگوں اور تخت برطانیہ کی کاروائیاں جاری رہیں۔ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد تحریک مجاہدین نے نہ صرف پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ افغانستان کی مدد سے پاکستان کے خلاف کارروائی بھی شروع کی۔ تحریک مجاہدین کے امیر فقیر ایپی وزیر کی وفات 1960 تک وزیرستان میں بے چینی رہی۔ 1970 کے دہائی میں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے آنے کے بعد وزیرستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ افغان جہاد میں وزیرستان اسامہ بن لادن اور دیگر بین الاقوامی جنگجوؤں کا ہیڈ کوارٹر مانا جاتا تھا۔ ان جنگجوؤں میں زیادہ تر نے’انصار اور مہاجرین کی تاریخی مثالیں دہراتے ہوۓ مقامی لوگوں سے شادی بیاہ جیسے رشتے استوار کیے۔ اور یہاں سکونت اختیار کی۔ افغان جنگ کے بعد تحریک طالبان کے دور میں ممتاز تحریکی لیڈرشپ نے وزیرستان میں سکونت اختیار کی جن میں حقانی نیٹ ورک کے جلال الدین حقانی سرفہرست ہیں ۔1997 میں امریکہ نے پہلی بار نوازشریف کے دور حکومت میں وزیرستان میں مجاہدین کے کیمپوں پر میزائل داغے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد وزیرستان مسلسل آپریشنز اور جنگو ں کی زد میں رہا۔ پاکستان آرمی نے جانی قربانیاں دے کر وزیرستان کو دہشتگردوں سے پاک صاف کیا۔ لیکن ابھی ایک نئے فتنے پی ٹی ایم نے جنم لیا ہے۔ اور وزیرستان کو دوبارہ تباہی، دہشتگردی ،بدامنی کی آگ میں دھکیلنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس بارے آئندہ ایک تحریر میں مفصل بات ہو گی۔

Leave a reply