جسمانی ریمانڈ کیا ہے ؟ آیا پولیس تشدد جسمانی ریمانڈ میں شامل ہے؟ ملاحظہ فرمائیں خاص رپورٹ

0
627

جسمانی ریمانڈ سے کیا مراد ہے ؟ کیا جو پولیس تشدد کرتی یے، اس کو جسمانی ریمانڈ کے تحت حق حاصل ہو جاتا ہے ؟
قانون اور آئین کیا کہتا ہے ،اہم رپورٹ ملاحظہ فرمائیں ۔

عام لوگ جسمانی ریمانڈ کو سمجھتے ھیں کہ جیسے ریمانڈ کا مطلب پولیس تشدد ھوتا ھے۔۔ایسا ھرگز نہیں۔

ھر گرفتار شدہ شخص کو قانونی طور پر چوبیس گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ھوتا ھے۔۔اسکے بعد اگر پولیس کو تفتیش کے لئے ملزم کی مزید کسٹڈی چاھئے تو اسے مجسٹریٹ سے اجازت لینا پڑتی ھے جسکو فیزیکل ریمانڈ کہتے ھیں۔۔ریمانڈ مطلب واپس پولیس کسٹڈی میں۔

تفتیش سے مراد ھرگز تشدد نہیں بلکہ سیکشن 4 ضابطہ فوجداری کے مطابق تفتیش سے مراد شہادتوں کو اکٹھا کرنا ھے۔۔آج کل ٹیکنالوجی کے دور میں ڈی این اے۔۔فنگر پرنثس فٹ پرنٹس۔۔ویڈیو کیمرہ ریکارڈنگ۔۔بھی evidence ھیں۔۔آرٹیکل 14 آئین پاکستان کے مطابق کسی سے اعتراف جرم کروانے کے لیے تشدد نہیں کیا جا سکتا۔۔

آرٹیکل 38 قانون شہادت آرڈر کے مطابق پولیس کے سامنے اور آرٹیکل 39 قانون شہادت کے مطابق پولیس کی کسٹڈی میں کئے گئے کسی اعتراف جرم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ا اور ناقابل ادخال شہادت ھے۔۔یعنی ایسے اعتراف جرم کو ملزم کے خلاف شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

پولیس کا رویہ ویسے بھی انتہائی ہتک آمیز ھوتا ھے۔۔کسی کو تھانے میں لاتے ھی گالی دینا اور دو تھپڑ لگا دینا تو روٹین کی بات سمجھی جاتی ھے۔۔آرٹیکل 14 ائین پاکستان کے مطابق انسان کی عزت اسکا بنیادی حق ھے۔۔باقی بنیادی حقوق کسی بھی قانون کے تحت معطل کئے جا سکتے ھیں ۔یعنی زندگی کا بنیادی حق بھی ختم کیا جا سکتا ھے جب آپ کو عدالت سے سزا ھو جائے اور قانون کے مطابق پھانسی وغیرہ ھو جائے۔۔لیکن عزت کا حق unqualified ھے جسکو کبھی بھی چھینا نہیں جا سکتا۔۔اسی لئے 1994 میں سپریم کورٹ نے پاکستان میں سرعام دی جانے والی ھر سزا پر پابندی لگا دی تھی جس میں لوگ کسی کے سامنے تماشا بنیں ۔جس میں کوڑوں کی سزا بھی شامل تھی۔۔کیونکہ انسان کو اسکے جرم کی سزا دی جا سکتی ھے لیکن بطور انسان اسکی تذلیل نہیں کی جا سکتی۔۔

Leave a reply