آئین اورپارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے: وزیراعظم

0
52

اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل میں کہا ہے کہ آئین اورپارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

اپنی ٹوئٹ میں شہباز شریف کا کہنا تھاکہ آئین نے ریاستی اختیار پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کو تفویض کیے ہیں اور آئین نے سب اداروں کو متعین حدود میں کام کرنے کا پابند کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی ادارہ کسی دوسرے کے اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتا، آئین اورپارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

وزیراعظم کا کہنا تھاکہ عدلیہ کی ساکھ کا تقاضا اور قرین انصاف یہی تھا کہ فل کورٹ تشکیل دیا جاتا، انصاف نہ صرف ہوتا بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا۔

 

ان کا کہنا تھاکہ عدالتی فیصلے سے قانون دانوں، سائلین، میڈیا اور عوام کی حصول انصاف کیلئے توقعات کو دھچکا لگا ہے۔

 

 

دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپریم کورت کے فیصلے کو ناپسند کرتے ہوئے کچھ اہم پیغامات بھی شیئرکیئے ہیں ، جن میں کہا گیا ہے کہ دو دن سے میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف کی نوٹنکی جاری ہے،

’شکریہ اللہ، شکریہ عوام:عمران خان کا سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم

ہماری فل کورٹ کی اپیل کو مسترد کرنے کے فیصلے نے آج کے فیصلے کو پہلے ہی متنازعہ بنا دیا تھا، سول سوسائٹی، وکلاء برادری، باری ایسوسی ایشن کے نمائندوں، وکلائ، قانونی ماہرین نے کل کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا، فل کورٹ آئینی مسئلہ کی تشریح کے لئے بنا دیا جاتا تو آج کا فیصلہ متنازعہ نہ ہوتا، مریم اورنگزیب

حمزہ شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ نہیں ہوں گے تو اس سے مسلم لیگ (ن) کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، وفاقی وزیر اطلاعات وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد کرنے کے فیصلے پر کہا ہے کہ عدلیہ کو ان جکڑی ہوئی چیزوں سے نکالنے کی جدوجہد کا آغاز ہوا ہے، پاکستان کے عوام کو آئین اور پارلیمان کی بالادستی واپس لے کر دیں گے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی عدلیہ بحالی کی جدوجہد تھی، آج سے اس کا دوسرا باب شروع ہوا ہے۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کی تشکیل کے لیے دائر درخواست نے پہلے ہی اس تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کر دیا تھا، جب کل فل کورٹ کی درخواست مسترد ہوئی تو ہمارے وکلا نے آج سپریم کورٹ میں تین رکنی بینچ کی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ آج جو فیصلہ آئے گا، وہ فیصلہ نہ عوام کو قابل قبول ہوگا، نہ فریقین کو قابل قبول ہوگا کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ پنجاب کے اوپر چوری کرکے آر ٹی ایس سٹم بیٹھا کر 2018 میں مسلط کیا تھا اس کو دوبارہ پنجاب پر مسلط کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ آئینی، پارلیمانی اور دو خطوط کا ہے، ایک خط عمران خان نے لکھا تھا جس کی وجہ سے حمزہ شہباز کو ڈالے جانے ووٹوں میں سے 25 ووٹوں کو نکال دیا جاتا ہے، اور ووٹ ڈالنے والے اراکین کو ڈی سیٹ کر دیا جاتا ہے، عمران خان کا خط پارٹی سربراہ کی حیثیت سے لکھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین بطور پارٹی سربراہ اپنے اراکین اسمبلی کو ہدایات جاری کی تھی کہ وہ عمران خان کے امیدوار کو ووٹ نہ ڈالیں اور حمزہ شہباز کو ووٹ کاسٹ کریں، سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کے مطابق ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی کہ مسلم لیگ (ق) کے 10 اراکین کے ووٹوں کو مسترد کیا جاتا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات مریم نواز کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین کی جانب بطور پارٹی سربراہ لکھا جانے والا خط حرام ہے جبکہ عمران خان کا بطور پارٹی سربراہ لکھا جانے والے خط کی وجہ سے 25 ووٹوں کو شمار نہیں کیا جاتا جبکہ چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے لکھے جانے والے خط کے باوجود پرویز الہیٰ کو ڈالے گئے ووٹوں کو شمار کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے ہم نے فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ تین رکنی بینچ بننے سے لے کر اب تک انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا، اسی لیے حکومتی اتحاد کے تمام سیاسی قائدین سمیت تمام اطراف سے یہی آوازیں آئیں کہ ہمیں فل کورٹ چاہیے، اگر فل کورٹ بن جاتا تو آج کا فیصلہ مختلف ہوتا، ایک شخص کی خاطر آئین کی تشریح میں فرق ڈالا جا رہا ہے، اپنی مرضی سے آئین کی تشریح کی جا رہی ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ آوازیں آ رہی تھیں کہ پانچ رکنی بینچ نے تین بار کے منتخب وزیراعظم نوازشریف کو نکالا تھا، اس دن کے فیصلے کے بعد سے آج تک ملک میں معاشی تباہی، بے روزگاری، افلاس، بھوک، افراتفری، فساد اور نفرت کے بیج بوئے گئے، آج کا فیصلہ اسی کا تسلسل ہے، اور اثرات بھی ویسے ہی ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کا فیصلہ ملک میں مزید تقسیم پیدا کرے گا، ملک میں مزید انتشار پیدا ہوگا اورانصاف پر زیادہ انگلیاں اٹھائی جائیں گی، اس لیے فل کورٹ بنانا چاہیے تھا۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدلیہ بحالی کی جدوجہد تھی، آج سے اس کا دوسرا باب شروع ہوا ہے، آئین کی بالادستی، پارلیمان کی بالادستی اور عدلیہ کو ان جکڑی ہوئی چیزوں سے نکالنے کی جدوجہد کا آغاز ہوا ہے، پاکستان کے عوام کو آئین اور پارلیمان کی بالادستی واپس لے کر دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کا اصل مینڈیٹ جو 2018 میں چوری ہوا، جو اس وقت کے عدالتی فیصلے نے چوری کیا جب نواز شریف کو اپنی کرسی سے ہٹایا گیا، آج کے فیصلے کو بھی آئین اور پارلیمان کی بالادستی میں تبدیل کریں گے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن کے رہنما قانون ملک احمد نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک بحث کل سے چل رہی ہے کہ ڈائریکشن پارٹی سربراہ کی ہوگی یا پارلیمانی پارٹی کی، اس حوالے سے وکلا کا مؤقف تھا کہ فل کورٹ تشکیل دیں.

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ایک انتہائی غیر مناسب صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس سے پنجاب اسمبلی کی خودمختاری متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ تقاضہ کرتے ہوئے کہ انصاف کی توقع نہیں ہے، عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا، یہ معمولی واقعہ نہیں ہے اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

Leave a reply