نیویارک اورفرانس میں‌ پاکستان کی ملکیت اربوں‌ ڈالرزکے ہوٹلوں پرقبضے کا منصوبہ:عالمی طاقتوں نے سرجوڑ لیئے

0
84

نیویارک /اسلام آباد :نیویارک میں‌ پاکستان کی ملکیت”روزویلٹ "ہوٹل پرقبضے کا منصوبہ:عالمی طاقتوں نے سرجوڑ لیئے ،اطلاعات کے مطابق عالمی قوتوں نے پھر سے اپنے مفادات کوہرصورت محفوظ رکھنے اورپانے کے لیے سرجوڑ لیے ہیں‌ ، اس حوالے سے پاکستان کے لیے کچھ اچھی خبر نہیں ہے ،

ذرائع کے مطابق دنیا بھر میں سرمایہ کاری معاملات اورتنازعات کو حل کرنے کے لیے قائم عالمی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹکا دیا گیا ہے اوراس کا اصل ہدف پاکستان کو نیویارک میں پاکستانی ملکیت روزویلٹ ہوٹل سے محروم کرنا ہے

پاکستان کو امریکہ اور فرانس میں غیر منقولہ جائداد املاک کے ہاتھ چلے جانے کا خدشہ پیش ہوگیا ہے اوراس کا بڑا سبب پاکستان کے صوبے بلوچستان میں کان کنی کے ایک معاہدے سے پاکستان کی دستبرداری ہے

برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایک عدالت نے نیو یارک کے روزویلٹ ہوٹل اور پیرس میں سیلیپٹ سکرائب ہوٹل جو دونوں سرکاری ملکیت میں چلنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی ملکیت ہیں کی قیمت کا اندازہ کرنے کے لئے ایک عہدیدار مقرر کیا ہے۔

خطرے کی بات یہ ہے کہ بیرک گولڈ اور انٹوفاگستا کا ایک کنسورشیم جو دو کثیر القومی کان کنی کمپنیاں ہیں ،جو بلوچستان میں تانبے اور سونے کی کان کنی کے لائسنس کی منسوخی کے خلاف معاوضے کے طور پر ہوٹلوں پر کنٹرول چاہتے ہیں۔

کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہیں معدنیات کو نکالنے سے بلاجواز روک دیا گیا تھا۔ دوسری طرف اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ اس منصوبے میں بے ضابطگیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ملک کو اچھا سودا نہیں مل رہا تھا۔

انٹرنیشنل سنٹر فار انوسٹمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) کے تحت ، بین الاقوامی بینک کی ماتحت عدالت 2019 میں پاکستان پر 5.97 بلین ڈالر کا جرمانہ عائد کرنے کے بعد سے پوری دنیا کے ثالثی قانون کے ماہرین نے اس معاملے میں دلچسپی لی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت عدالت سے باہر سمجھوتہ کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے لیے اتنی بڑی رقم کا جلد ادا کرنا بھی بڑا مشکل ہے جو آئی سی ایس آئی ڈی کی عدالت کی طرف سے عائد کیا گیا تھا

“یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان کتنا معاوضہ ادا کرے گا کیونکہ ہر معاملہ مختلف ہے۔ مگر ماضی میں جو کچھ دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ سرمایہ کار بیرون ملک کسی ملک کے اثاثوں پرقبضہ جمانے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں

میں‌اس موقع ٔپر عرض‌کردوں کہ اس طرح کے معاملات کا فیصلہ انویسٹر اسٹیٹ ڈسپوٹ سیٹلمنٹ (آئی ایس ڈی ایس) کے تحت کیا جاتا ہے ، یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جو دولت مند ممالک نے اپنی کمپنیوں کی غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لئے تشکیل دیا ہے۔

غیر ملکی سرکاری اثاثوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں غیر معمولی نہیں ہیں۔ آئی سی ایس آئی ڈی اور اس طرح کے دیگر ٹریبونلز کے قانونی احاطہ میں ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے کام کرنے والے وکلاء جارحانہ طور پر ان مقدمات کی پیروی کرتے ہیں۔

اس کی واضح مثآلیں موجود ہیں جیسا کہ کینیڈا کا سونے کا کان کنی والے ادارا کرسٹللیکس 1.4 بلین ڈالر کے تنازعہ میں کامیابی کے بعد وینزویلا کی سرکاری تیل کمپنی کی ملکیت میں واقع ایک امریکا میں واقع آئل ریفائنری میں حصص کا کنٹرول چاہتا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ وینزویلا نے کرسٹلیکس کی سونے کی کان کو 2008 میں قومیایا تھا

ایک بات یہ بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کسی ملک کے غیر ملکی اثاثوں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں سالوں کا وقت لگ سکتا ہے۔ بہت سے معاملات میں اس وقت تک معاملات طئے نہیں ہوتے جب تک کہ باہمی تصفیہ نہ ہو

اس سے پہلے پاکستان کی سابقہ حکومتوں نے معاشی طور پرتباہ حال ایئر لائن کو بچانے کے لئے رقم اکٹھا کرنے کے کی نیت س مین ہیٹن کے مقام پر واقع ، مشہور روزویلٹ ہوٹل فروخت کرنے پر غور کیاتھا ۔ ہوٹل ،

یہ بھی یاد رہے کہ یہ ہوٹل جو کہ پہلے ہی بہت زیادہ نقصانات سے دوچار ہے اسے اکتوبر میں بند کردیا گیا تھا۔

اس موقع پر میں یہ بھی بتا دوں کہ پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے آئی سی ایس آئی ڈی سے جرمانے کومعاف کرنے کی درخواست کی ہےجس کے متعلق حتمی فیصلہ مئی 2021 میں متوقع ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ عدالت کے لیے یہ کرنا آسان ہے ، تو اس کو جواب یہ ہے کہ اس ٹریبونل پرکام کا بوجھ زیادہ پڑگیا ہے جس کی وجہ سے ریسرچ ، تحقیقات بھاری فیسیں ، وکلا کی غیرجانبداری اورکیس کے مجموعی اخراجات کون اداکرے گا عالمی عدالت کے پاس تو اتنے وسائل نہیں

اس بات سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ یہ معاملات پاکستان کے کیسز کے حوالے سے کچھ رکاوٹ ضرور پیدا کرسکتےہیں جو کہ بلا شبہ پاکستان کے لیے ایک اچھا شگون ہے

پاکستان کے معاملے نے ایسے قانونی معاملات کی پیروی کرنے والے لوگوں میں ایک غیرمعمولی آواز پیدا کردی ہے کیونکہ یہ ایوارڈ یقینی طور پر معاشی بحران سے دوچار ملک کو نقصان پہنچانے کا باعث ہے۔

اینٹوفاگستا اور بارک نے بلوچستان کے چاغی ضلع میں واقع کان ، ریکو ڈیک منصوبے میں لگ بھگ 220 ڈالر کی سرمایہ کاری کی ، جو تنازعہ کا مرکز ہے۔

پاکستان کو ثالثی کے معاملے میں گھسیٹا گیا تھا جس کی بنیاد پر دوطرفہ سرمایہ کاری معاہدہ (بی آئی ٹی) تھا جس نے اس نے 1998 میں آسٹریلیا کے ساتھ دستخط کیے تھے۔

تیتیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) ، جو مشترکہ منصوبہ ہے جو اینٹوفاگستا اور بیرک نے ریکو ڈیک کان کنی مراعات کا انتظام کیا تھا ، آسٹریلیا میں رجسٹرڈ ہے۔

Leave a reply