
اسلام آباد:بین الالقوامی پابندیوں کیساتھ طالبان کابینہ کھل کر کام کرنے سے قاصر ہوگی۔اطلاعات کے مطابق سابق وزیر داخلہ اور چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ریفارمز (آئی آر آر) سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ نئی افغان کابینہ بنیادی طور پر اقوام متحدہ کے نامزد دہشت گردوں پر مشتمل ہے اور وہ ان بین الاقوامی پابندیوں کیساتھ حکومت میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کھل کر سامنے نہیں آ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ سراج الدین حقانی ، جنہیں وزارت داخلہ دی گئی ہے ، خودکش حملوں میں ملوث ہونے اور القاعدہ کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ایف بی آئی کے انتہائی مطلوب افراد میں سے ایک ہیں اور امریکی محکمہ خارجہ نے ان کی گرفتاری کے لیے معلومات کے لیے 10 ملین ڈالر تک کے انعام کی پیشکش کی ہے۔ افغان نئی کابینہ تقریباً ملا عمر کی پوری کابینہ پر مشتمل ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ملا عمر دوبارہ اقتدار میں آگیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملا حسن نامزد وزیراعظم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دہشت گردی کی بلیک لسٹ میں سرفہرست ہیں جس میں ان کے نائب عبدالغنی برادر بھی شامل ہیں۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ 33 رکنی عبوری کابینہ میں سے چار رہنماؤں کو گوانتانامو بے جیل میں رہ چکے ہیں اور ان میں ملا محمد فاضل نائب وزیر دفاع ، خیر اللہ خیرخواہ وزیر اطلاعات و ثقافت ، ملا نور اللہ نوری سرحدوں اور قبائلی امور کے وزیر اور ملا عبدالحق وثاق ڈائریکٹر انٹیلی جنس اور گروپ کے پانچویں رکن محمد نبی عمری کو مشرقی صوبے خوست کا گورنر مقرر کیا گیا ہے شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قائم مقام وزیر دفاع ملا یعقوب ، قائم مقام وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی اور ان کے نائب شیر محمد عباس ستانکزئی سب اقوام متحدہ کی دھشتگردوں کے فہرست میں شامل ہیں۔
چیئرمین آئی آر آر نے کہا کہ طالبان نے تہران سے حمایت حاصل کرنے کے لیے سب پر مشتمل ایک "جامع” حکومت بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن کابینہ میں کوئی ہزارہ رکن شامل نہیں کیا گیا ہے اور کابینہ کے تمام وزراء طالبان رہنماؤں پر مشتمل ہیں جو امریکہ کے خلاف لڑ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اطلاع ملی ہے کہ سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی سے حکومت میں کچھ عہدوں کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ان کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ اب وہ دونوں یرغمالیوں کی طرح ہیں اور اقوام متحدہ کو ان کی حفاظت اور ان کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔
رحمان ملک نے زور دے کر کہا "میں ہر ملاقات میں صدر حامد کرزئی سے کہتا تھا کہ اچھے یا برے طالبان نہیں ہیں ، بلکہ طالبان صرف طالبان ہیں”۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بلوچستان سے اور ٹی ٹی پی کے خود ساختہ جلاوطن عسکریت پسندوں کی موجودگی سے پریشان ہے جن میں مولوی فقیر محمد اور دوسرا زندہ بچ جانے والا خودکش حملہ آور اکرام اللہ ہے جو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے جائے وقوع سے فرار ہوا اور اب افغانستان کے کنڑ کے علاقے میں موجود ہے۔
رحمان ملک نے کہا کہ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ عبداللہ اورکزئی جو کہ فاروق اسلم کے نام سے جانا جاتا ہے اور داعش پاکستان کا سربراہ تھا پیچھلے دنوں طالبان کے ہاتھوں مارا گیا ہے اور امید ہے کہ طالبان اکرام اللہ کو بھی پاکستان کے حوالے کر دیں گے جس سے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قتل کے متعلق مزید معلومات درکار ہیں۔
رحمان ملک نے مزید کہا کہ "اگرچہ احمد مسعود نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف موثر مزاحمت کرنے کے لیے فورسز رکھتے ہیں اور امراللہ صالح نے آخری سانس تک مزاحمت اور طالبان کے خلاف لڑنے دعوہ کیا ہے مگر اطلاع ہے کہ وہ تاجکستان فرار ہو چکا ہے تاہم ، این آر ایف کے خارجہ تعلقات کے سربراہ علی میثم نظاری نے ان دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا پنجشیر پر قبضہ کرنے کا دعویٰ جھوٹا تھا اور این آر ایف کے دونوں رہنما ، احمد مسعود اور امر اللہ صالح افغانستان میں موجود ہیں اور وہ کہیں بھاگے نہیں ہیں۔
بھارت کے کردار کے بارے میں رحمان ملک نے کہا کہ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ بھارت احمد مسعود کی قیادت میں طالبان کے خلاف مزاحمت کی حمایت کرے گا جب کہ ایک جمہوری اور شمولیتی نظام کے بیس سال کے خاتمے کے بعد سے جس میں بھارت نے 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے بھارت کو ایک افسوسناک دھچکا لگا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان انتہائی حساس پوزیشن میں ہے کیونکہ ٹی ٹی پی ، القاعدہ اور داعش کے دھشتگرد پاک افغان سرحد پر موجود ہیں جو بھارت پاکستان میں ہائبرڈ جنگ کے لیے استعمال کرے گا۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا امریکہ پھر پاکستان پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ افغانستان میں مزید کام کرے اور یہ "ڈو مور” سنڈروم کی پرانی کہانی شروع کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بار پاکستان کو اپنی غلطی نہیں دہرانی چاہیے اور چین ، ایران ، روس اور ترکی کے ساتھ مشترکہ منصوبے کے طور پر مستقبل کی واضح پالیسی بنانی چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو افغان حکومت کو ایک بلاک کی صورت میں سلیم کرنے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں اور بھارت کو پاکستان کے خلاف غیر ضروری پروپیگنڈا ختم کرنے کے لیے بھی مدعو کیا جا سکتا ہے۔
سینیٹر رحمان ملک نے بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ افغانستان پر اقوام متحدہ کے اجلاس کو فوری طور پر طلب کرے اور مشرقی شام کی طرح قتل عام کے امکانات سے بچنے کے لیے ایک "امن فوج” کی تعیناتی پر غور کرے۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغان حکومت کے ہر اسٹیک ہولڈر کے لیے دو تجاویز پیش کرنا چاہیں گے پہلے یہ کہ طالبان کی حکومت اعتدال پسند ہو جائے اور خواتین کو تعلیم ، میڈیا اور ملازمت کے مواقع فراہم کرے کیونکہ اگر خواتین احد کے میدان جنگ میں لڑ سکتی ہیں تو پھر وہ افغانستان میں کام کیوں نہیں کر سکتیں اور دوسرا ، طالبان کو ایک عام اعلان کرنا چاہیے ہر ایک کے لیے عام معافی جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد فرمایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا اس بات کی تعریف کرے کہ چین نے افغانستان کے لیے 31 ملین ڈالر کی انسانی امداد کا وعدہ کیا ہے اور پاکستان نے پی آئی اے کے ذریعے ادویات بھی پہنچائی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے ممالک بھی افغانستان کے لوگوں کے لیے ضروری کام کرنے کے لیے آگے آئیں گے۔