یہ مری انا کا سوال تھا تجھے یاد کر کے بھلا دیا

0
53
salma hijaab

کبھی ترے خط کو جلا دیا کبھی نام لکھ کے مٹا دیا
یہ مری انا کا سوال تھا تجھے یاد کر کے بھلا دیا

اصلی نام :سلمہ اعجاز
قلمی نام:سلمیٰ حجاب
تاریخ ولادت:15 ستمبر 1949
ء

نام سلمہ اعجاز: قلمی نام :سلمہ حجاب۔ پیدائش 15 ستمبر 1949 ۔ وطن۔ لکھنؤ، تعلیم: فلسفے میں ایم ۔اے اور بی ۔ایڈ۔ پہلا شعری مجموعہ ’’دھنک‘‘اور دوسرا’’اسماں اور بھی ہیں‘‘ ’’تیسرا زیر ترتیب ہے۔ ’’بزم اردو‘‘ لکھنو، کی پانچ سال صدر رہیں اورپروفيسر ملک زادہ منظور احمد کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ ’’امکان‘‘ لکھنؤ سے مسلسل دس برسوں تک معاون اور نائب مدیر کی حیثیت سے منسلک رہیں اور ان کے انتقال کےبعد 2017 میں ’’امکان‘‘ کا ایک خصوصی شمارہ، پروفيسر ملک زادہ منظور احمد نمبر نکالنے کے بعد ادارت سے دستبردار ہو گئیں۔ شاعری کے علاوہ افسانے اور مضامین بھی لکھتی ہیں جومعروف ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

غزل
۔۔۔۔۔۔
کبھی تیرے خط کو جلا دیا کبھی نام لکھ کے مٹا دیا
یہ مری انا کا سوال تھا تجھے یاد کر کے بھلا دیا
نیا آرزو کا مزاج ہے نئے دور کی ہیں رفاقتیں
تری قربتوں کا جو زخم تھا تری دوریوں نے مٹا دیا
مجھے ہے خبر تجھے عشق تھا فقط اپنے عکس جمال سے
کہ میں گم ہوں تیرے وجود میں مجھے آئینہ سا بنا دیا
میں حصار میں تو حصار میں اسی سلسلے کو دوام ہے
کبھی مصلحت نے جدا کیا تو کبھی غرض نے ملا دیا
سبھی کہہ رہے ہیں یہ برملا جو گزر گیا وہی خوب تھا
ابھی ایک پل جو ہے آسرا اسے سب نے یوں ہی گنوا دیا
وہ شرر ہو یا کہ چراغ ہو ہے تپش مزاج میں اے حجابؔ
کبھی ہر نفس کو جلا دیا کبھی روشنی کو بڑھا دیا

غزل
۔۔۔۔۔۔
جینا کیا ہے حباب ہو جانا
اک حقیقت کا خواب ہو جانا
عشق ہے سلسلہ سوالوں کا
اور وفا لا جواب ہو جانا
بارہا محفلوں نے دیکھا ہے
خامشی کا رباب ہو جانا
یہ کرشمہ ہے زر نوازی کا
ان کا تم سے جناب ہو جانا
جنبش فکر کی یہی حد ہے
بس عذاب و ثواب ہو جانا
جب وہ گوہر شناسیاں نہ رہیں
اے گہر پھر سے آب ہو جانا
تشنگی امتحان لیتی ہے
اے ندی تو سراب ہو جانا
اٹھ گئی اس طرف نظر ان کی
اے تمنا حجابؔ ہو جانا

غزل
۔۔۔۔۔۔
سکون دل کو مرا اضطراب کیا جانے
شکست خواب کو تعبیر خواب کیا جانے
وہ منکشف ہے ابھی صرف دشت و صحرا پر
جو کیف تشنہ لبی ہے وہ آب کیا جانے
نشاط سجدہ سے جس کو غرض ہے وہ بندہ
جھکا دے سر تو عذاب و ثواب کیا جانے
وہ زندگی سے ادا سیکھتا ہے جینے کی
تمام چہرے جو پڑھ لے کتاب کیا جانے
اسیر شوق تو اذن سفر کا طالب ہے
مقام عیش کو خانہ خراب کیا جانے

نظم
۔۔۔۔۔۔
آخری خواہش
۔۔۔۔۔۔
تھی خواہش کسی کی
کہ میں زندگی کا
اہم واقعہ
کوئی چن کر سناؤں
میری فکر نے جب ادھر رخ کیا تو
یہ پایا کہ
مشکل بڑی ہے
کہ یہ زندگی تو
اہم واقعوں کی
مسلسل کڑی ہے
ادھر بھی جڑی ہے
ادھر بھی جڑی ہے
اسی فکر میں میں پڑی رہ گئی کہ
اٹھاؤں کدھر سے
اہم واقعہ اک
تسلسل کو اس کے
کدھر سے میں توڑوں
اگر توڑ بھی دوں
تو پھر کیسے جوڑوں
شروع کی کڑی تو بہت ہی اہم تھی
اسے چھو کے دیکھا تو بالکل نرم تھی
ابھی درمیاں تک میں
پہنچی نہیں تھی
کہ رنگین کڑیاں
کھنکنے لگیں خود
مجھے چھو کے دیکھو
مجھے چوم لو تم
کہ مجھ سے اہم
کچھ نہیں زندگی میں
عجب معجزہ تھا کہ
کڑیاں سبھی وہ
نہ آنچل سے الجھیں
نہ ٹھہریں کہیں بھی
گزرتی رہیں اور
گزرنے سے پہلے
حسیں رنگ اپنے
عطا کر کے مجھ کو
مری ہی کلائی میں
بن بن کے کنگن
کھنکنے لگی تھیں
تسلسل مگر ان کا ٹوٹا نہیں تھا
کوئی رنگ بھی ان کا جھوٹا نہیں تھا
ابھی تک تو ان کو
سنبھالے سنبھالے
گزرتی رہی میں
سرا آخری جب
مرے ہاتھ میں ہے
تو جی چاہتا ہے
مجھے تھام لے وہ
میری سست رفتاریوں کے مقابل
اگر وہ ٹھہر نہ سکے
تو مرا ساتھ دینے کی خاطر
وہ اتنا تو کر دے
کہ میرے گزرنے سے پہلے
مرا وقت آنے سے پہلے
بڑھے
اور
مجھے قید کر لے

Leave a reply