یہ نظام بدلنا چاہیے تحریر: محمد وقاص شریف

عید سے دو روز قبل شام کو قربانی کےجانور دیکھنے فتح پور کے قریب کے دیہات میں جانا ہوا۔ وہیں ایک چک میں ہماری ملاقات محمداسماعیل سے ہوئی جو چھوٹے سے زمیندار ہیں۔ہم نے پوچھا کہ کتنی زمین ہے۔ کہنے لگے تیرہ ایکٹر تھی مگر اب صرف چار ایکٹر رہ گئی ہے، باقی نو ایکٹر ایک جھوٹے مقدمے پر لگ گئی ہے۔
مزید تفصیلات پوچھیں تو بتانے لگے کہ آج سے دس بارہ سال قبل کسی سے زمین کے ایک حصے کا سودا کیا۔ انھوں نے کچھ پیسے بیعانے کے طور پر دیے اور ایک پرونوٹ پر دستخط کروائے کہ اتنی رقم وصول کی ہے، اور پرونوٹ پر اصل رقم کی بجائے پندرہ لاکھ لکھوا لیا۔ محمد اسماعیل ایک ان پڑھ شخص تھا، لینے والے بھی قریبی تھے اس لیے بغیر کسی سے تصدیق کروائے، انگوٹھے لگا دیے۔
مخالف پارٹی نے کچھ دن کے بعد سودا کینسل کر دیا اور کہا کہ ہماری رقم واپس کر دیں۔ اسماعیل نے جتنے پیسے لیے تھے وہ واپس کیے تو انھوں نے کہا کہ یہ ہماری رقم نہیں بلکہ ہمیں پندرہ لاکھ دیں جو آپ نے لیے ہیں۔ گواہ بھی موجود تھے کہ اصل کتنی رقم دی گئی تھی۔
مخالف پارٹی نےاس دھوکے بازی کو قانونی رنگ دے کر کیس کر دیا۔ ڈسٹرکٹ کورٹ میں کئی سال مقدمہ چلا اور فیصلہ محمد اسماعیل کے حق میں ہو گیا۔ مخالف پارٹی نے اس کیس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ ہائی کورٹ میں کئی سال پھر مقدمہ چلا اور پھر سے محمد اسماعیل کے حق میں فیصلہ ہو گیا۔ اب تک محمد اسماعیل مقدمے کی فیس اور آنے جانے کے خرچ پر نو ایکٹر لگا چکا تھا۔ مخالف پارٹی نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ محمد اسماعیل نے سپریم کورٹ کے وکیل کی فیس کا پتہ کیا تو اس نے دو لاکھ مانگے۔
محمد اسماعیل یہاں کے وڈیرے پیروں کے پاس گیا، منت ترلا کیا کہ اب چار ایکٹر بچ گئے ہیں یہ بھی چلے جانے ہیں، جو دو لاکھ ادھر دینے ہیں وہی آپ لے لیں اور یہ صلح کر وا دیں۔ پیروں کو محمد اسماعیل پر رحم آگیا اور دو لاکھ دے کر محمد اسماعیل کی جان چھوٹ گئی۔
دس بارہ سال عدالتوں کے دھکے کھانے، نو ایکٹر اور دو لاکھ گنوانے کے باوجود بھی محمد اسماعیل کو انصاف نہ مل سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے ہمارا نظام انصاف۔ یہ انصاف کا سسٹم ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ اس پورے سسٹم کو ہی ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس نظام کی سب سے بڑی خرابی وکلاء ہیں جو بنے تو اس لیے تھے کہ اس نظام کو سہارا دیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی وکلاء اس نظام کو سب سے زیادہ خراب کر رہے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دونوں اطراف کے وکیل عدالت کے باہر مل کر خوش گپیاں لگاتے ہیں اور طے کرتے ہیں کہ کسی بھی طرح بس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہونے دینا۔
نظام انصاف کی دو خصوصیات لازمی ہیں، پہلی یہ کہ فوری ہو اور دوسری یہ کہ فری ہو۔ مگر یہ نظام ایسا ہے کہ بندے کو کنگال کر کے رکھ دیتا ہے۔ اور وقت اتنا لگتا کہ نسلیں انصاف کی امید میں بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ جب ایک عدالت سے فیصلہ ہو گیا تو پھر کسی بھی دوسری عدالت میں لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟
اور اگر ضلعی عدالت میں انصاف نہیں ہوتا تو پھر سارے مقدمے سپریم کورٹ میں ہی سن لیے جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے گھر چوری ہوئی ، پولیس نے چور پکڑ لیے، سامان برآمد کروا لیا۔ اب کیس عدالت میں پیش ہوا۔ سیدھا سا کیس ہے جس میں چور پکڑے بھی چا چکے اور سامان بھی برآمد ہوا، سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگز اور فارنزک رپورٹ کے علاوہ چوروں کا اقرار جرم بھی موجود۔ اب ایسے مقدمے میں وکیل کی کیا ضرورت مگر وکیل کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ دو تین وکیل تبدیل کیے مگر جس کو بھی کیا کسی ایک نے بھی مجھ سے وقوعہ کی تفصیلات تک نہیں پونچھیں۔ میں نے بتانے کی کوشش کی تو بھی نہیں سنی، عدالت میں خود پیش ہوا تو چھ دفعہ جج نے سوائے نئی تاریخ کے کچھ نہیں کیا۔ اس کے بعد اتنے ثبوتوں کے باوجود تمام ملزمان ضمانت پر رہا ہوگئے۔ اس دوران اس نظام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش کے کوئی اس نظام کوبدلنے کی کوشش کرے تاکہ میرے ملک میں ناانصافی ختم ہو، لاقانونیت کا خاتمہ ہو جائے اور دھوکے دینے والوں کو سخت سے سخت سزاملے اور جھوٹے مقدموں میں پھنسانے والوں کو کڑی سزائیں ملیں۔ یہ انقلاب صرف تب آ سکتا ہے جب وہ لوگ سنجیدہ کوشش کریں جو اسی نظام کا حصہ ہیں۔
@joinwsharif7

Comments are closed.