نور مقدم کیس کا مکمل چلان پیش ہونے کے بعد آج ایک اہم سماعت ہوئی۔ آج کی سماعت میں کیا اہم پیش رفت ہوئیں۔ پولیس کی جانب سے جو مکمل چالان پیش کیا گیا ہے اس میں کیا ڈبل گیم کی گئی ہے اس پر بھی بات کریں گے۔ لیکن پہلے اسلام آباد میں ہونے والی ایک اور درندگی کے بارے میں بات ہو گی،اب سے تقریبا دو ہفتے پہلے آٹھ نومبر کی صبح اسلام آباد کے میٹرو سٹیشن میں موجود زیر تعمیر واش روم سے پولیس کو ایک نامعلوم بچی کی لاش ملی تھی۔ اس بچی نے سفید لباس پہنا ہوا تھا اور اس کی گردن کے سامنے والی ہڈی فریکچر تھی اور چہرے پر نشانات تھے۔اسی روز اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹر پر تلاش ورثا کے عنوان سے ایک اپیل پوسٹ کی جس میں شہریوں سے بچی کی شناخت میں مدد دینے کو کہا گیا۔ پہلے تو کئی دنوں تک اس پر کوئی ریسپانس نہ آیا لیکن پولیس نے دوبارہ مزید تفصیل کے ساتھ پوسٹ کی اور تصویر بھی ساتھ ڈالی گئی جس کے بعد اس کے چند رشتےداروں نے اس کو پہچان لیا انہوں نے پہلے تو اس کے والد سے رابطہ کیا لیکن والد نے اپنے رشتےداروں سے بھی بولا کہ وہ بچی اس کے پاس ہی ہے اور سو رہی ہے جس پر اس کے رشتے داروں نے پولیس سے رابطہ کیا۔ اور جب پولیس نے تفتیش کی تو پتہ چلا کہ خود کو غمزدہ اور مظلوم دکھانے والا باپ ہی اصل میں وہ درندہ ہے جس نے اس معصوم بچی کو قتل کیا۔ ابھی یہ تفتیش ہونا تو باقی ہے کہ کہیں اس بچی کے ساتھ قتل سے پہلے زیادتی تو نہیں کی گئی۔ لیکن اس درندے باپ نے یہ کہتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے کہ وہ بچی اس پر بوجھ تھی اس لئے اس نے بچی کو مار کر اس سے جان چھڑا لی اور ظلم کی انتہا دیکھیں کہ قتل کے فورا بعد وہ ایک دفتر میں گیا اور وہاں جاکر کہا کہ میں اپنی بیٹی کو اس کے چچا اور دادی کے پاس چھوڑ آیا ہوں اس لئے مجھے نوکری دے دی جائے۔ اس طرح پولیس کو معلوم ہونے سے پہلے ہی وہ فتح جنگ میں کسی کے ہاں ڈرائیونگ کی نوکری بھی حاصل کر چکا تھا۔ اور اب جب اس درندے کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے تو وہاں یہ خود کو بچانے کے لئے ڈرامہ کر رہا ہے کہ اس نے اپنی بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کیا ہے۔اب بات کرتے ہیں دوسرے درندے ظاہر جعفر کی۔۔ نور مقدم قتل کیس کی ایک اہم سماعت ہوئی۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو 29 سمتبر کو کیس کا ٹرائل آٹھ ہفتوں میں مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔ وہ آٹھ ہفتے آج پورے ہو گئے ہیں۔ ویسے تو ملزمان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے18 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا آٹھ ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم نامہ برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اب وہ آٹھ ہفتے تو پورے ہو گئے ہیں لیکن مکمل چالان بھی دو دن پہلے پیش ہوا ہے اور ابھی تک صرف گیارہ گواہان کے بیانات قلمبند کرائے جا چکے ہیں جن پر جرح مکمل کر لی گئی ہے لیکن مزید سات گواہان کی بیانات قلمبند کروانے باقی ہیں۔
آج تھراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی کی درخواست پر سماعت جلد کی گئی جبکہ مدعی کے وکیل سپریم کورٹ میں مصروفیت کے باعث عدالت میں پیش نہ ہوسکے اور ان کی جگہ بابر حیات کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ملزمان کے وکیل اکرم قریشی کی جانب سے سی سی ٹی وی فوٹیج ویڈیو وائرل ہونے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جائے وقوعہ کی فوٹیج وائرل ہونے سے کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ عدالت اس حوالے سے کوئی مناسب حکم نامہ جاری کرے۔ انہوں نے عدالت سے ایک بار پھر درخواست کی کہ عدالت اس کیس کو ان کیمرا رکھنے اور میڈیا کوریج پر مکمل پابندی کا حکم نامہ جاری کرے۔ میں آپ کو بتا دوں کہ درندے اور اس کے خاندان کی یہ بہت پرانی خواہش ہے کہ کسی طرح میڈیا کو اس کیس سے دور رکھا جائے تاکہ عوام تک اس کیس کی کوئی اپ ڈیٹس نہ پہنچ سکیں انصاف کے لئے کوئی پبلک پریشر نہ ہو اور اس کے بعد جس طرح سے یہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے کیس کا رخ موڑنا چاہیں وہ موڑ سکیں۔ میڈیا کوریج سے روکنے کے لئے وکیل کی جانب سے یہ بھی دلیل دی گئی کہ ہمیں گالیاں پڑ رہی ہیں ہمارا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے ہماری فیملیز مشکل میں ہیں حالانکہ ہم تو یہاں صرف قانون کے مطابق Factsپر بات کر رہے ہیں۔ تو میرا سوال ان وکلا سے یہ ہے کہ جب آپ کو آپکی فیس سے بھی کئی گنا زیادہ پیسے لگائے گئے اور آپ نے یہ کیس لڑنے کی حامی بھری تو اس وقت آپ نے کیوں نہیں سوچا کہ جس درندے اور اس کے خاندان کو آپDefendکرنے جا رہے ہیں ان کا مکروہ اور گھناونا عمل تو پہلے ہی پوری دنیا کے سامنے کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ جب آپ اتنی درندگی کرنے والے خاندان اور ان کے حمایتیوں کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر یہ سب تو ہو گا۔ اور ساتھ ہی وکیل اسد جمال نے مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے سے متعلق دلائل دیے۔ وکیل نے کہا کہ ہمیں صرف کچھ منٹس کے کلپس ہی فراہم کیے گئے ہیں ملزمان کا حق ہے کہ مکمل فوٹیج فراہم کی جائے تاکہ انہیں دفاع کا موقع دیا جا سکے۔ حق تو ملزمان کا ضرور ہے لیکن عدالت پہلے ہی ان کو کچھ کلپس دے کر دیکھ چکی ہے کہ وہ انھوں نے کیسے وائرل کروائے تھے اس لئے اب ان کو مکمل فوٹیج دینا بھی کسی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ویسے تو یہ اسد جمال صاحب کو چاہیے کہ فوٹیج میں جو کچھ یہ دیکھنا چاہتے ہیں اس کی تفصیلات یہ اپنی موکلہ عصمت آدم جی سے پوچھ لیں کیونکہ وہ تمام سی سی ٹی وی کیمرے عصمت آدم، درندے ظاہر جعفر اور ذاکر جعفر کے فون کے ساتھ لنک تھے۔ یہ دونوں خود نور مقدم پر ہونے والے ظلم کے تمام مناظر اپنے فونز پر دیکھتے رہے ہیں اور صرف دیکھتے ہی نہیں رہے یہ نور مقدم کی چیخ و پکار بھی سنتے رہے ہیں۔ اب اس فوٹیج کی آڈیو بھی سامنے آچکی ہے لیکن کیونکہ پیمرا کی جانب سے اجازت نہیں ہے تو وہ آپ کو سنوائی نہیں جا سکتی۔
وکلا کی جانب سے سی سی ٹی وی فوٹیج کے وائرل ہونے اور مکمل فوٹیج حاصل کرنے کے حوالے سے دلائل کے بعد ان دونوں درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔ جو کہ اگلی سماعت پر سنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ آج کی سماعت میں استغاثہ کے گواہ محمد جابر جو کہ کمپیوٹر آپریٹر ہے اس کا بیان بھی قلمبند کیا گیا اور اس پر جرح بھی مکمل کر لی گئی ہے۔ لیکن درندے ظاہر جعفر نے آج پھر عدالت میں وہی ڈرامہ کیا جو کہ وہ کئی بار کر چکا ہے آج کی سماعت تقریبا ایک گھنٹے تک جاری رہنے رہی اور ملزمان کو سماعت کے آخر پر کمرہ عدالت میں لایا گیا۔ آج کی سماعت پر پھر درندے ظاہر جعفر کی جانب سے ایک اور وکیل پیش ہوا جس کا نام سکندر ذولقرنین سلیم ہے جو کہ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج ہیں۔ ان کو درندے کی فیملی کی جانب سے ہی ہائر کیا گیا لیکن پچھلی سماعت کی طرح ان وکیل صاحب کے پاس بھی وکالت نامے پر درندے کے دستخط نہیں تھے۔ اور جب درندے کو عدالت میں لایا گیا اور اس سے دستخط کروانے کو کہا تو اس نے ایک بار پھر انکار کر دیا اور کہا کہ میں وکیل سے میٹنگ کرنے کے بعد اپنا وکیل مقرر کروں گا۔ اس کی فرمائشیں دیکھا کریں آپ کہ جیسے پتہ نہیں کونسا اعلی کارنامہ کرکے یہ موصوف بیٹھے ہیں حالانکہ اس نے جو کچھ کیا ہے اس کے بعد تو یہ انسان کہلانے کے بھی لاءق نہیں ہے۔اس کے علاوہ عصمت آدم جی کی درخواست پر کمرہ عدالت میں ہی ان کی درندے ظاہر جعفر اور ذاکر جعفر سے ملاقات کرائی گئی۔ اپنے وکیل کی موجودگی میں پہلے عصمت آدم جی نے درندے ظاہر جعفر سے کچھ دیر بات چیت کی اس کے بعد جب درندے کو کمرہ عدالت سے باہر لے جایا گیا۔ تو عصمت آدم جی نے کچھ دیر اپنے شوہر ذاکر جعفر سے بھی ملاقات کی۔اور اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ پولیس کی جانب سے جو پورا چالان پیش کیا گیا اس میں کیا ڈبل گیم کی گئی۔ ایک طرف تو پولیس نے اپنے آپ کو نیوٹرل ثابت کرنے کے لئے تمام کے تمام لوگوں کو ملزمان کی فہرست میں شامل کیا تھراپی ورکس کی جانب سے درخواست کے باوجود ان کو گواہان میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہاں تک تو سب بہت اچھا ہے۔ لیکن سوچیں کہ یہ پولیس درندے سے اس کے فون کا پاسورڈ نہیں لے سکی۔ کیا یہ پولیس کی نااہلی نہیں ہے۔ پھر اس سے بھی بڑی نااہلی ایف آئی اے کی ہے جس نے صاف انکار کر دیا کہ ہم فون کا ڈیٹا نہیں نکال سکتے۔ یعنی اب جو مکمل چالان ہے اس میں درندے کے فون اور لیب ٹاپ کا ڈیٹا شامل ہی نہیں ہے سوچیں کہ اس ڈیٹا کے بغیر کیا گیا ٹرائل کیسے مکمل اور انصاف پر مبنی ہو سکتا ہے۔ ویسے تو جج صاحب نے بھی پولیس والوں کو کہا تھا کہ اگر آپ سے نہیں ہوتا تو مارکیٹ سے کسی ہیکر کو پکڑ کر فون کھلوا لیں لیکن نہیں پولیس نے کوئی کوشش نہیں کی۔ اور اگر اسلام آباد پولیس اتنی ہی نا اہل ہے تو اس درندے کو پنجاب پولیس کے حوالے ہی کر دیں جب ان کے ہاتھ درندے کو لگیں گے تو اس کو خود ہی پاسورڈ یاد آجائے گا۔ لیکن خیر اب اس عدالتی کاروائی پر میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اب تو دیکھنا ہے کہ کب ٹرائل پورا ہو گا اور اس کا کیا نتیجہ سامنے آئے گا۔