العزیزیہ ریفرنس،عدالت نے فیصلہ سنا دیا، نواز شریف بری

0
261
nawaz

نواز شریف کی اپیل پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں اپیل منظور کرتے ہوئے نواز شریف کو بری کر دیا،عدالت نے اپیل منظور کرتے ہوئے سزا کالعدم قرار دیدی،احتساب عدالت کے فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کردیا

نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے،اس موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے، نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں اپیل پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی، سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھے،نواز شریف کے وکلاء اعظم نذیر تارڑ، امجد پرویز جبکہ نیب کی لیگل ٹیم روسٹرم پر موجود تھی،نیب کی جانب سے لیگل ٹیم میں نعیم طارق سنگیڑا، محمد رافع مقصود اور اظہر مقبول شاہ عدالت پیش ہوئے،نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل کا آغاز کر دیا.

نواز شریف کے وکیل امجد پرویز روسڑم پر آگئے ، اور کہا کہ زیر کفالت کے ایک نکتے پر صرف بات کرنا چاہتا ہوں،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کے دلائل تو مکمل ہوگئے ہیں،امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ میں صرف ایک نکتے زیر کفالت کے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں،عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے نواز شریف کے زیر کفالت سے متعلق کچھ ثابت کیا ہے؟ وکیل امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ استغاثہ کے اسٹار گواہ واجد ضیاء نے اعتراف کیا تھا کہ زیر کفالت سے متعلق کوئی شواہد موجود نہیں ہیں،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ نیب نے کوئی ثبوت دیا کہ اپیل کنندہ کے زیر کفالت کون تھے؟ امجد پرویز نے کہا کہ بے نامی کی تعریف سے متعلق مختلف عدالتی فیصلے موجود ہیں،ہم نے ٹرائل کورٹ کے سامنے بھی اعتراضات اٹھائے تھے، امجد پرویز ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے مختلف حصے پڑھ رہے ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پر کہا گیا کہ ان شواہد کی بنیاد پرثبوت نواز شریف پر منتقل ہوگیا ہے، وکیل امجد پرویز نے کہا کہ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ میں حسیں نواز کی دائر کردہ متفرق درخواستوں پر انحصار کیا گیا ہے،اگر ان متفرق درخواستوں کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی ثابت نہیں ہوتا کہ نواز شریف اسٹیل مل کے کبھی مالک رہے ہوں ، جن متفرق درخواستوں پر ٹرائل کورٹ نے انحصار کیا ہے،ٹرائل کورٹ نے ان متفرق درخواستوں کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا ،ٹرائل کورٹ نے تین چیزوں پر انحصار کیا،ٹرائل کورٹ نے پانامہ کیس میں دائر سی ایم اے کو بنیاد بنایا،تینوں سی ایم اے حسن نواز، مریم نواز اور حسین نواز نے جمع کرائیں،نواز شریف کی جانب سے ایک بھی سی ایم اے جمع نہیں کرائی گئی،ٹرائل کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ یہ جمع کرائی گئی سی ایم ایز مجرمانہ مواد ہیں، ایک بھی سی ایم اے ثابت نہیں کرتی کہ نواز شریف ان اثاثوں کے مالک ہیں، استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام ہوئے تو شریک ملزم کے بیان پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ، حسین نواز نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ جائیداد کا والد سے تعلق نہیں ، حسین نواز کے ٹی وی انٹرویو پر انحصار کیا گیا ہے، نواز شریف کی قومی اسمبلی میں تقریر پر بھی انحصار کیا گیا، امجد پرویز نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیئے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ جو سی ایم ایز دائر کی گئی تھیں ان میں کیا تھا؟وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سی ایم ایز کو ریکارڈ پررکھا ہی نہیں گیا، سی ایم ایز کے ساتھ منسلک دستاویزکو ریکارڈ پر رکھا گیا،ان سی ایم ایز میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ نواز شریف کی ملکیت تھی،بلکہ یہ لکھا تھا کہ نواز شریف کا تعلق نہیں،یہ ایک اصول ہے کہ کسی ایک مقدمے کے ثبوت کو کسی دوسرے مقدمے میں نہیں پڑھا جا سکتا،خصوصی طور پر جب دونوں مقدمات کی نوعیت الگ الگ ہو،حسین نواز کے کیپیٹل ٹاک کے انٹرویو پر بھی انحصار کیا گیا،حالانکہ اس انٹرویو میں بھی حسین نواز کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کا تعلق نہیں،عدالتی فیصلے میں کہا گیا مقدمات میں ملزم کو معصوم سمجھا جاتا ہے اور استغاثہ کو الزام ثابت کرنا ہوتے ہیں،ملزم کو اپنی معصومیت ثابت کرنے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا،یہی قانون اثاثوں کے مقدمات میں بھی لاگو ہوا ہے،عدالتی فیصلے میں کہا گیا مقدمات میں ملزم کو معصوم سمجھا جاتا ہے،فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمات میں استغاثہ کو الزام ثابت کرنا ہوتے ہیں،فیصلوں کے مطابق بار ثبوت استغاثہ پر ہوتا ہے، نہ کہ ملزم پر، پراسیکیوشن نے آمدن اور اثاثوں کی قیمت بتانا تھی،پراسیکیوشن نے ثابت کرنا تھا کہ جن کے نام اثاثے ہیں وہ تو زیر کفالت ہیں، پراسیکیوشن نے ثابت کرنا تھا کہ بے نامی جائیداد بنائی گئی،اگر اس متعلق کوئی ثبوت نہیں دیا گیا تو یہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں بنتا،

وکیل امجد پرویز نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس سے بری کرنے کی استدعا کر دی ،وکیل امجد پرویز کے دلائل مکمل ، نیب کی جانب سے دلائل کا آغاز کر دیا گیا،نیب پراسیکوٹر نعیم طارق سنگیڑا نے کہاکہ سپریم کورٹ نے 28 جولائی کے فیصلے میں ریفرنس تیار کرکے دائر کرنے کی ہدایت کی، نیب نے اپنی تفتیش کی،اثاثہ جات کیس میں تفتیش کے دو تین طریقے ہی ہوتے ہیں،ہم نے جو شواہد اکٹھے کئے وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں،،نیب ریفرنسز میں تفتیش کے لیے سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نیب نے بے نامی اثاثوں کی تفتیش کی،اس کیس میں فرد جرم احتساب عدالت نمبر ایک کے جج محمد بشیر نے عائد کی تھی،اس میں 161 کے بیانات بھی ہیں،نیب وکیل کی جانب سے ریفرنس کی چارج شیٹ پڑھی گئی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ بنیادی طور پر اس کیس میں العزیزیہ اور ہل میٹل کے الزامات ہیں، العزیزیہ میں پہلے بتائیں کتنے پیسے بھیجے کیسے بھیجے کب فیکٹری لگی ؟، یہ بتائیں کہ العزیزیہ سٹیل ملز اور ہل میٹل کب بنی تھیں؟ آپ پراسیکیوٹر تھے، بتائیں آپ کے پاس کیا شواہد تھے؟ آپ بتائیں کہ آپ نے کس بنیاد پر بار ثبوت ملزم پر منتقل کیا؟قانون کو چھوڑیں، قانون ہم نے پڑھے ہوئے ہیں، آپ سیدھا مدعے پر آئیں، کوئی ریکارڈ پر ثبوت ہوگا؟ کوئی گواہ موجود ہوگا؟ ذرا نشاندہی کریں،

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ فرد جرم عائد کرتے ہوئے عدالت نے ملزمان معلوم زرائع لکھے، نواز شریف پرکرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے الزام کے تحت فرد جرم عائد کی گئی،ایس ای سی پی، بنک اور ایف بی آر کے گواہ عدالت میں پیش ہوئے، یہ وائٹ کالر کرائم کا کیس ہے، پاکستان میں موجود شواہد اکٹھے کئے ہیں،بیرون ملک شواہد کے حصول کے لیے ایم ایل اے لکھے گئے ، عدالت نےکہا کہ آپ یہ بتائیں وہ کون سے شواہد ہیں جن سے آپ انکا تعلق کیس سے جوڑ رہے ہیں، جائیدادوں کی مالیت سے متعلق کوئی دستاویز تو ہوگا ؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ شواہد میں جانے سے پہلے ایک کنفیوژن دور کرنا چاہوں گا،آخری سماعت پر آپ نے کہا تھا کہ فیصلہ دوبارہ تحریر کرنے کیلئے ٹرائل کورٹ ریمانڈ بیک کیا جائے،ہم نے ابھی تک کوئی آرڈر جاری نہیں کیا، آپ اس اپیل پر میرٹ پر دلائل دے کر سزا برقرار رکھ سکتے ہیں،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ العزیزیہ ریفرنس کو دوبارہ احتساب عدالت بھیجنے کی استدعا کی تھی، جج سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے اور اُس کے نوکری سے برطرف ہونے کے بعد اِس فیصلے کو درست نہیں کہا جا سکتا،العزیزیہ ریفرنس کا احتساب عدالت کا یہ فیصلہ متعصبانہ ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نے ارشد ملک سے متعلق درخواست پر گزشتہ سماعت پر کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا تھا،یہ تو آپ نے کہا تھا کہ آپ اس درخواست پر مزید کارروائی نہیں چاہتے ،نیب وکیل کی بات درست ہے کہ سپریم کورٹ کے ارشد ملک کیس کے فیصلے میں آبزرویشنز کافی مضبوط ہیں،وہ درخواست اگر نہ بھی ہوتی، تب بھی اگر وہ فیصلہ ہمارے سامنے آجاتا تو ہم اس کو ملحوظ خاطر رکھتے،

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نیب تو آپ پر احسان کر رہا ہے، آپ کیوں لینے سے انکاری ہیں؟،العزیزیہ کا فیصلہ کالعدم ہوجائے گا اور آپ کے موکل مجرم نہیں رہیں گے، نواز شریف کے وکلاء نے کہا کہ احسان بھی تو دیکھیں کیسا ہے،اگر یہ معاملہ واپس ٹرائل کورٹ ہی جانا ہے تو بعد میں بھی ہمیں یہیں آنا پڑے گا، نیب پراسیکوٹر نےایک بار پھر کیس ریمانڈ بیک کرنے کی استدعا کر دی،اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب پراسیکوٹر کی ایک بار پھر کیس ریمانڈ بیک کرنے کی استدعا مسترد کر دی ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کو میرٹ پر سن کر فیصلہ کریں گے، آپ کو میرٹ پر دلائل دینے میں کتنا وقت چاہیے؟ نیب وکیل نے کہا کہ دلائل میں شواہد بتائیں گے پھر ان کا تعلق جوڑنے کی کوشش کریں گے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ چلیں پھر آپ میرٹ پر دلائل دیں، ہم میرٹ پر سن لیتے ہیں،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں اپنے دلائل آدھے پونے گھنٹے میں مکمل کر لوں گا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ پونے گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کریں،اپیل سننے کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ جو فیصلہ دیا گیا اس کیلئے شواہد بھی موجود تھے یا نہیں،آپ نے بتانا ہے کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز سے یہ رقم سعودی عرب بھیجی گئی ،نیب کے گواہ واجد ضیا خود مان رہے ہیں کہ کوئی ثبوت نہیں ،اس دستاویز کو درست بھی مان لیا جائے تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نواز شریف کا العزیزیہ اور ہل میٹل کے ساتھ کوئی تعلق ہے ،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ واجد ضیا نے analysis کیا کہ نواز شریف ہی اصل مالک ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ واجد ضیا تو خود مان رہا کہ ملکیت ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمارا کیس ہی واجد ضیا کے analysis کی بنیاد پر ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس ڈاکومنٹ سے کچھ ثابت نہیں ہوتا، مفروضے پر تو کبھی بھی سزا نہیں ہوتی ہے،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ریکارڈ میں زیادہ تر دستاویزات فوٹو کاپیز ہیں ،عدالت نے کہا کہ فوٹو کاپیز عدالتی ریکارڈ کا حصہ کیسے بن سکتی ہیں ؟ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں آج تک فوٹو کاپی کی بھی مصدقہ نقل نہیں ملی ،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف کے بیٹوں کے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے کہ وہ مِلیں لگا لیتے، عدالت نے کہا کہ یہ بتائیں کہ نواز شریف کا تعلق کیسے بنتا ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہی بتا رہا ہوں کہ نواز شریف کے بیٹوں کے پاس اتنے ذرائع موجود ہی نہیں تھے،عدالت نے کہا کہ مفروضے پر تو بات نہیں ہو سکتی، یہ بتائیں کہ نواز شریف نے کیسے کرپشن اور کرپٹ پریکٹیسز سے پیسہ باہر بھیجا؟ سٹار گواہ واجد ضیاء کہہ چکا کہ اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بات بھی سامنے ہے کہ میاں محمد شریف کا کاروبار تھا،

نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کیخلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا جو اب سنا دیا گیا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں اپیل منظور کرتے ہوئے نواز شریف کو بری کر دیا

آئے روز وزیراعظم کو اتار دیا جائےتو پھر ملک کیسے چلے گا ،نواز شریف

قصے،کہانیاں سن رہے ہیں،یہ کردار تھا ان لوگوں کا،نواز شریف کا عمران خان پر طنز

خاور مانیکا کے انٹرویو پر نواز شریف کا ردعمل

سات منٹ پورے نہیں ہوئے اور میاں صاحب کو ریلیف مل گیا،شہلا رضا کی تنقید

پینا فلیکس پر نواز شریف کی تصویر پھاڑنے،منہ کالا کرنے پر مقدمہ درج

نواز شریف کے خصوصی طیارے میں جھگڑا،سامان غائب ہونے کی بھی اطلاعات

Leave a reply