کسی بھی معاشرے کی زینت اور مضبوطی اس کی اخلاقی اقدار میں پیوست ہوتی ہیں۔ زنا معاشرے کے لئے زہرِ قاتل ہے۔ موجودہ دور میں بد اخلاقی کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے جہاں معاشرے میں اخلاقی گراوٹ وقوع پذیر ہو رہی ہے وہیں معاشرے کا امن اور آزادی بھی انتہائی گہرائی سے مضروب ہو رہے ہیں۔
معاشرے کی بقا اس کی اخلاقی اقدار، تہذیبی اصناف اور ذہنی بلندی سے وابستہ ہے۔
آج کل کا معاشرہ جہاں مختلف مصائب کا شکار ہے وہیں زنا جیسا ناسور بھی اپنی جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔
زنا انسانی معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ گو کہ یہ انسانی جبلت ہے لیکن بطور انسان اخلاقیات بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑی جا سکتیں۔
آج کل زنا کی وجوہات کو لے کر ایک وسیع و عریض بحث دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ عورت کے لباس کی وجہ سے یہ رجحان بڑھ رہا ہے تو کسی کے نزدیک مرد کی نظر اس کی ذمہ دار ہے۔
لیکن ہم ابتدا سے اس ناسور کا جائزہ لیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں پہناووں کو لے کر ایک خاص رسم چل پڑی ہے جس کے تحت عورت کے پہناوے دن بدن سکڑ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ دو سال کی بچیوں کو بھی ایسے ملبوسات پہنائے جا رہے ہیں کہ بچیاں کسی فیشن انڈسٹری کی ماڈل لگنے لگ گئی ہیں۔
بچیاں ابھی دو سال کی ہی ہوتی ہیں کہ انہیں تنگ اور مختصر لباس پہنانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اور عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ لباس مزید مختصر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دوپٹہ جو کہ خاص مشرقی روایات میں سے ایک تھا، آج کل تو ناپید ہوتا نظر آ رہا ہے۔ زیرِ نظر شعر شاید ہمارے ماضی کے لئے کسی شاعر نے لکھا تھا کیونکہ ہمارا حال تو اس شعر کا بالکل بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔

تعلق ہے میرا اس قوم سے، جس قوم کے بچے
خریدیں جب کوئی گڑیا، دوپٹہ ساتھ لیتے ہیں

عورت مختصر لباس میں معاشرے میں گھومتی ہے اور اسے اپنی آزادی کا نام دیتی ہے۔
جبکہ دوسری طرف
ایک بچہ جب دو سال کا ہوتا ہے تو وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھتا ہے اور اس ماحول پر غور وفکر کرتا رہتا ہے۔ گو کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بچہ ہے اسے کوئی سدھ خبر نہیں ہو گی لیکن وہ مکمل طور پر معاشرے کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وہی بچہ جب نوجوان ہوتا ہے اور اپنے اردگرد تنگ لباسی کو عام دیکھتا ہے اور وہ عورت جس کو پردے میں رہنے کا حکم دیا گیا ہو لیکن وہ نیم برہنہ کپڑوں میں ملبوس کھلے عام گھوم رہی ہو تو اسے دیکھ کر وہ نوجوان بھی تنگ نظر بن جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ نوجوان اپنی انسانی جبلت کے زیرِ اثر شہوانیت کا شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے اور حوا زادیوں کی طرف اس کی رغبت مزید بڑھنے لگ جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں شادیاں ویسے بھی دیر سے ہوتی ہیں اس لئے نوجوان غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
آج کل جہاں فحش ویب سائٹس عام ہیں اور فحش لباس میں ملبوس کچھ گمراہ ذہنی مریضائیں کھلے عام گھومتی ہیں وہیں کسی مومن کو ابلیس بننے میں دیر نہیں لگتی۔
میری اس بات کا اگر آپ معاشرتی تجربہ کرنا چاہیں تو آپ دیکھیں گے کہ ایسے علاقے جہاں زنا کی سزائیں جرگوں میں دی جاتی ہیں اور غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے وہاں ترقی یافتہ شہروں کی نسبت زنا کی شرح نہ صرف انتہائی کم ہو گی بلکہ وہاں کی خواتین پردے کا بھی سختی سے اہتمام کرتی ہوں گی اور مرد بھی اپنی نظریں اپنے قابو میں رکھ کر گھومتے ہوں گے۔
زیادتی اور اغوا کے جتنے بھی واقعات پیش آتے ہیں ان کی اکثریت ترقی یافتہ شہروں میں صرف اس وجہ سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہاں پر فیشن اور آزادی کے نام پر عورت سے اس کی حیا اور روایات چھین لی گئی ہیں اور عورت تک مرد کی دسترس آسان کر دی گئی ہے۔
یہ نام نہاد آزادی اور فیشن کا ناسور مغرب سے درآمد ہو کر آیا اور اب مختلف این جی اوز اور دیگر اداروں کے ذریعے مشرق میں اس کی بڑھوتری اور ترویج پر کام جاری ہے۔
بطور ایک منظم اور تہذیب یافتہ معاشرہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنی بنیاد کو نہ بھولیں۔ اس معاشرے کی بنیاد مشرقی اصولوں پر مبنی ہے۔ لہٰذا مغربی تہذیب اور پہناوے یہاں کارگر ثابت نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم اسلامی لباس اور اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد شروع کر دیں تو نہ صرف عورت کے لباس کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے بلکہ اس لباس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مرد کی تنگ نظری پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اگر زنا کی وجہ عورت کا لباس ہے تو پردہ دار خواتین اور بچے کیوں محفوظ نہیں؟ اس سے میری عرض ہے کہ جب کوئی جانور خونخوار بن جاتا ہے تو وہ اونٹ اور چوہے میں فرق نہیں کرتا۔ اسے جہاں بھی خون کی خوشبو آئے جھپٹ پڑتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں سوچنا چاہئے کہ خونخواری کی وجہ کیا ہے؟ اگر آپ معاشرے کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو آپ میری ساری گزارشات خود ہی سمجھ جائیں گے۔

زنا جیسے ناسور پر قابو پانے کے لئے ہمیں جلد از جلد اس فیشن انڈسٹری سے چھٹکارہ حاصل کر کے معاشرے کو راہِ راست پہ لانا ہو گا۔
اگر آپ نے ضائع ہوتا پانی بند کرنا ہے تو آپ کو بجائے اس پانی کو ٹھکانے لگانے یا پائپ کو مروڑنے کے نلکہ ہی بند کرنا پڑے گا۔ کیونکہ جب تک سر نہ کچلا جائے سانپ زندہ رہتا ہے۔

لکھنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن ایک آرٹیکل میں سب دلائل اور گفتگو کا سما جانا ممکن نہیں۔ اس کے لئے بیسیوں صفحات پر مشتمل کتابچہ بھی شاید کم پڑ جائے۔ بہر حال ہم صرف جڑ سے ہی اس لعنت کو ختم کر سکتے ہیں اور کوئی حل نہیں ہے۔
@1nVi5ibL3_

Shares: